گنگا میں درجنوں تیرتی لاشوں کا سچ کیا ہے؟

گنگا میں درجنوں تیرتی لاشوں کا سچ کیا ہے؟

بہار(ویب ڈیسک) بھارتی ریاست بہار کے ضلع بکسر میں درجنوں لاشیں گنگا ندی میں تیرتی دکھائی دی ہیں، جس کے بعد لوگوں میں خوف و تعجب کی لہر تھی۔ بکسر انتظامیہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ لاش اتر پردیش سے بہہ کر آئی ہیں، جن میں خاص طور سے غازی پور کا ذکر کیا گیاتھا۔

اتنی بڑی تعداد میں لاشوں کی موجودگی سے لوگ حیران رہ گئے ہیں۔ ایک ضلعی عہدیدار اشوک کمار نے بتایا کہ 40-50 کے قریب لاشیں تیرتی دکھائی دی ہیں۔ بہار کے عہدیداروں کے مطابق ان لاشوں کا تعلق وارانسی ، الہ آباد ، یا اترپردیش کے کسی اور مقام سے ہے۔

ضلعی عہدیدار اشوک کمار نے مزید کہا ، "ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں لوگ لاشوں کو جلا دیں۔ ایک اور عہدیدار کے کے اپادھیائے نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا کئی دن پانی میں رہنے کی وجہ سے یہ لاشوں پھول کر دریا کی سطح پر آ گئی ہیں جو ہولناک منظر پیش کر رہی ہیں۔ اس کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہاں سے ہیں، اپادھیائے نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے گنگا کے علاقوں کے قریب عہدیداروں کو آگاہ کیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔

مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ لاشوں کی تعداد انتظامیہ کی اطلاع سے کہیں زیادہ ہے اور دریا میں 100 سے زیادہ لاشیں ہوسکتی ہیں۔ دوسری جانب مقامی افراد کا کہنا تھا کہ ضلع چندولی اور غازی پور کے کچھ ایسے گاؤں ہیں جن میں سنت کبیر داس کے نظریات کے پیروکار موجود ہیں، ان نظریات کے ماننے والے لاشوں کی آخری رسومات یاتو دفن کرکے کرتے ہیں یا پانی میں بہا دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسے نظریات کے لوگوں نے گنگا میں لاشیں بہائی ہوں اور کچھ دن بعد اب وہ تیرتی دکھ رہی ہیں۔تاہم مقامی صحافیوں کا دعوی ہے کہ غازی پور کے پارہ اور گہمر گاوں میں درجنوں لاشیں موجود ہیں، جن کی آخری رسومات ادا نہیں کی گئی ہے لیکن ضلع مجسٹریٹ ایم پی سنگھ نے اس سے انکار کیا ہے انہوں نے مزید کہا چند لاشیں ہیں جن کی آخری رسومات ادا کردی گئی ہے، مزید تلاش جاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ دعویٰ کرنا کی آخری رسومات کے لئے انتظام نہیں ہیں لکڑیاں نہیں ہیں اور دیگر ساز و سامان نہیں ہے وہ سراسر غلط ہے۔

مصنّف پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے فارغ التحصیل ہیں اور دنیا نیوز اور نیادور میڈیا سے بطور اردو کانٹینٹ کریٹر منسلک رہے ہیں، حال ہی میں پبلک نیوز سے وابستہ ہوئے ہیں۔