ویب ڈیسک: (سلیمان چودھری) پنجاب میں آبادی بڑھنے کی سالانہ شرح 2.5 فیصد ہے،اگر اس میں کمی نہ لائی گئی تو 2050 تک پنجاب کی آبادی 23 کروڑ50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ بڑھتی آبادی تعلیم ، صحت سمیت دیگر دستیاب وسائل پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پنجاب میں سالانہ 36 لاکھ سے زائد بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ اوسطا ہر ماں تین سے چار بچے پیدا کرتی ہے۔ پنجاب میں سالانہ 6 ہزار سے زائد مائیں زچگی کی پیچدگیوں سے مر جاتی ہیں اور ہر 1000 میں سے 73 بچے ایک سال کی عمر تک وفات پا جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر پاپولیشن کونسل پاکستان ڈاکٹر علی میر کہتے ہیں کہ اگر مانع حمل کے طریقوں کے استعمال کی شرح کو 59 فیصد تک بڑھایاجائے۔ ماؤں کی 2700 اور کم عمر بچوں کی سالانہ 73 ہزار اموات کم کی جا سکتی ہیں۔ اگر اسی طرح آبادی بڑھتی رہی تو 2030 تک پنجاب میں 34 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ 37 فیصد سے زائد کو غذائی کمی اور 35 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے۔ پنجاب میں موجودہ شرح کے حساب سے 2040 تک 6 کروڑ60 لاکھ مزید گھروں اور 35 ہزار نئے سکولز کی ضرورت پڑے گی۔
وزیر پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ خواجہ عمران نذیر کہتے ہیں کہ پنجاب میں صحت کے موجودہ سہولیات پر مریضوں کا دباؤ ہے جس کی بڑی وجہ بڑھتی آبادی ہے۔ جب تک اسے کنٹرول نہیں کیا جاتا تب تک شعبہ صحت میں بہتری نہیں آسکتی۔
محکمہ پاپولیشن ویلفیئر کو محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر کے ساتھ ضم کرنے کا سوچ رہے ہیں اور فیملی پلاننگ کے کلینکس کی ری ویمپنگ کی جائے گی۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ مانع حمل کے طریقوں کے استعمال کو بڑھایا جائے تو 2050 تک پنجاب کی آبادی صرف 19 کروڑ تک بڑھے گی۔