پبلک نیوز: لاہور ہائیکورٹ نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی اپنے خلاف درج مقدمات کی تفصیل فراہم کرنے کی درخواست پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب سے کل تک جواب طلب کر لیا۔
تفصیلا ت کے مطابق جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے فواد چوہدری کی درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس عالیہ نیلم نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ آئی جی پنجاب کو بلا لیں ان سے معلومات لے لیتے ہیں، انہوں نے ریمارکس دیے کہ آئی جی پنجاب سے کہیں کہ ہمیں ٹک ٹاک کی پریزنٹیشن نہیں چاہیے۔
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فواد چوہدری پر 40 مقدمات درج ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری 4 ماہ جیل میں رہے، تب تفتیش کیوں نہیں کی گئی۔
سرکار ی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ تفتیشی افسر کو تفتیش کرنی چاہیے تھی۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ کیا ان پولیس افسران کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہے؟
جسٹس عالیہ نیلم نے ہدایت دی کہ آپ کے پاس 10 منٹ کا وقت ہے آئی جی پنجاب کو بلا لیں۔
آئی جی پنجاب عثمان انور عدالتی حکم پر لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہو گئے۔
جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب بتائیں ایک شخص جیل میں ہے مگر آپ کے تفتیشی موج مستی میں رہے، تفتیش نہیں کی۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ فواد چوہدری پر مختلف جگہوں پر مختلف مقدمات درج ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ہدایت کی کہ آپ پہلے یہ بتائیں،تفتیش کرنے کے لیے آپ کے تفتیشی نے کیا کوشش کی۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ تفتیش کے لیے کچھ قانونی تقاضے ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ آپ کتابی باتیں نہ کریں، یہ بتائیں تفتیشی نے کیا کوشش کی؟۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ پولیس کی نیک نیتی کا ثبوت یہ ہے کہ جہاں بے گناہ تھے فواد چوہدری کو بے گناہ کیا گیا۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ہم اشتہاریوں کے خلاف بھی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ آپ کے اشتہاری تو فیصل آباد میں بیٹھے ہیں آپ کے تفتیشی کی ہمت نہیں ہو رہی کہ انہیں جا کے پکڑیں۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ہم فواد چوہدری کے خلاف درج تمام مقدمات کا ریکارڈ جمع کرا دیتے ہیں۔
عدالت نے آئی جی سے سوال کیا کہ آپ نے درخواست گزار سے تفتیش کے لیے تمام مقدمات میں انسداد دہشت گردی عدالت سے اجازت لی۔
ڈی آئی جی کامران عادل نے عدالت کو بتایا کہ تمام مقدمات میں تفتیش کی اجازت نہیں لی گئی، مجھے ایک ماہ پہلے ہی یہ کیسز ملے ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ پولیس فائل دیکھنے کے لیے کیا ایک ماہ کم ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک سال گزر گیا، آپ کے تفتیشی افسران کی پراگرس نہیں ہے، جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کی ایک مقدمے میں ضمانت خارج ہوئی اس میں گرفتاری کیوں نہیں ڈالی گئی۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ یہ کیسز بہت مختلف نوعیت کے ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ایک سال ہونے کو ہے، ان کیسز میں کوئی کام نہیں ہوا، آپ کی تفتیش کی فائل ہم نے دیکھی ہے ہمیں پتا ہے کہ پولیس کتنی کوشش کررہی ہے،آپ کے تفتیشی افسران نے اس وقت گرفتاری کیوں نہیں ڈالی؟ جب ملزم جیل میں تھا۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ آپ مقدمات میں نامزد کر کے بھول جاتے ہیں، سب کچھ ایسے ہی چل رہا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ فواد چوہدری کب کب گرفتار ہوئے؟۔
وکیل احسن بھون کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری 2 بار گرفتار ہوچکے ہیں، پہلی مرتبہ ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا، دوسری مرتبہ نومبر 2023 میں گرفتار کیا گیا۔
وکیل احسن بھون نے عدالت کو بتایا کہ دوران گرفتار مختلف مقدمات میں 41 روز کا جسمانی ریمانڈ بھی ہوا۔
عدالت نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ آپ کے تفتیشی افسران کا رویہ بہت افسوسناک ہے، پہلی بار سن رہے ہیں کہ تفتیشی اپنی مرضی سے وقت کا تعین کر کہ ہاتھ ڈالتے ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ ایک ہی دن میں 6، 6 ایف آئی آر ہو رہی ہے یہ کیا طریقہ کار ہے؟۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ مائی لارڈ آپ میری بات سنیں ہم نے مختلف جے آئی ٹیز بنائیں ہیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ہدایت کی کہ آئی جی پنجاب صاحب آپ یہ باتیں اس بینچ کے سامنے مت کریں، آپ ہمیں تفصیلی جواب دیں کہ ملزم آپ کے پاس جیل میں تھا تو پھر کیوں تفتیش نہیں کی گئی۔
عدالت نے حکم دیا کہ آپ کل تک جواب لے کر آجائیں۔
آئی جی پنجاب نے کہا کہ میری ٹیم آجائے گی، میں نے کل کچے کے علاقے میں جانا ہے۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ آپ کچے کے علاقے میں بہت جاتے ہیں، یہاں جواب جمع کرائیں۔
جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ یہ آپ کی تفتیشی ٹیم نہیں ہے، جو 10 روز کا وقت دے دے گی۔
بعد ازاں، عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔