یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
لاہور ( پبلک نیوز) ڈیرہ غازی خان میں1947 میں پیدا ہونے والے سید غلام عباس اہل ادب محسن نقوی کے نام سے پہچانتے ہیں۔ پہلے ملتان اور پھر لاہور کو آشیانہ بنانے والے اس شاعر کے الفاظ اور اس سے بڑھ کر انداز ایسا تھا کہ جو ایک دفعہ انھیں سن لے ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتا۔ لفظوں کی بنت اور کلام میں وسعت ایسی عطا ہوئی کہ خود بھی کہتے کہ الفاط ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ محسن نقوی مرثیہ نگاری میں قادرالکلام تھے۔ ان کی تصانیف میں عذاب دید، برگ صحرا، طلوع اشک، حق ایلیا اور دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے بڑی متاثر کن نظمیں بھی تخلیق کیں لیکن ان کی غزلوں کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ محسن نقوی مصلحت کوش نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایک سچے کھرے اور صاف آدمی تھے۔ شاید وہ بصیرت اور تخیل میں اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ آپنی قضا کو خود ہی دیکھ لیا تھا اسی لیے تو کہہ گئے