ڈیلٹا اور اومیکرون کے بعد نئے ویریئنٹ کی انٹری

ڈیلٹا اور اومیکرون کے بعد نئے ویریئنٹ کی انٹری
لاہور: (ویب ڈیسک) ڈیلٹا اور اومیکرون کے بعد اب نیا ویریئنٹ ڈیلٹاکرون آ گیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او) نے اطلاع دی ہے کہ اس نئے ڈیلٹا کرون قسم کے کچھ واقعات یورپی ممالک، فرانس، نیدرلینڈز اور ڈنمارک میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ تفصیل کے مطابق کورونا وائرس کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یکے بعد دیگرے نئی قسمیں سامنے آ رہی ہیں۔ ڈیلٹا اور اومیکرون کے بعد اب نیا ویریئنٹ ڈیلٹاکرون آ گیا ہے۔ یہ ڈیلٹا اور اومیکرون سے بنا ایک ہائبرڈ تناؤ ہے۔ برطانیہ سے ڈیلٹا کرون کے کچھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس نے ایک بار پھر ماہرین صحت اور لوگوں کی تشویش میں اضافہ کردیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایچ او) نے اطلاع دی ہے کہ اس نئے ڈیلٹا کرون قسم کے کچھ واقعات یورپی ممالک، فرانس، نیدرلینڈز اور ڈنمارک میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ ڈیلٹا اور اومیکرون کی مخلوط قسم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیلٹا کرون کا جینیاتی پس منظر ڈیلٹا کی مختلف حالتوں سے ملتا جلتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اومیکرون جیسے کچھ تغیرات بھی۔ اسی لیے اسے 'ڈیلٹاکرون' کا نام دیا گیا ہے۔ اومیکرون کو اب تک کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا کورونا ویرینٹ قرار دیا گیا ہے، جب کہ ڈیلٹا ویریئنٹ نے پچھلے سال کئی ممالک میں تباہی مچا دی تھی۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک سپر سپر میوٹینٹ وائرس ہے جس کا سائنسی نام BA.1+B.1.617.2 ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ ڈیلٹا اور اومیکرون پر مشتمل ایک ہائبرڈ تنا موجود ہے جسے پہلی بار قبرص میں گذشتہ ماہ محققین نے دریافت کیا تھا۔ اس وقت سائنس دانوں نے اسے لیب کی تکنیکی غلطی سمجھا۔ لیکن اب دنیا بھر سے اس کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان میں کیا خطرہ ہے؟ ڈیلٹا کرون کے کیسز برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ لیکن فی الحال پاکستان میں اس کے کیسز نہیں دیکھے گئے۔ ڈیلٹا کرون کی علامات یورپ کی ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی اس وقت ڈیلٹا کرون کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ایسے میں اس چیز کا ابھی پتا لگانا بہت مشکل ہے لیکن زیادہ تر کیسز میں یہ علامات دیکھی گئی ہیں۔ تیز بخار، کھانسی، سونگھنے کی حس میں کمی، ناک بہنا، تھکاوٹ محسوس کرنا، سر درد، سانس لینے میں دشواری، پٹھوں یا جسم میں درد، گلے کی سوزش ، الٹی اور اسہال شامل ہیں۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔