جہاں پر بھی خواتین موجود ہے، وہاں میل سٹاف نظر نہ آئے:چیف جسٹس

جہاں پر بھی خواتین موجود ہے، وہاں میل سٹاف نظر نہ آئے:چیف جسٹس
کیپشن: جہاں پر بھی خواتین موجود ہے، وہاں میل سٹاف نظر نہ آئے:چیف جسٹس

ویب ڈیسک:(سلیمان اعوان) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے تعلیمی اداروں میں حالیہ واقعات کی تحقیقات سے متعلق فل بنچ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی،اس موقع پر عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب سمیت دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب ویڈیو کو وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا، کیا آپ نے ویڈیو روکنے کے لیے کسی اتھارٹی سے رابطہ کیا؟

آئی جی پنجاب نے عدالت میں کہا کہ ہم نے پی ٹی اے سے رابطہ کیا۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ آج 18 تاریخ ہے ویڈیو 13 اور 14 کو وائرل ہوئی، آپ نے جاگنا تب ہوتا ہے جب آگ لگ چکی ہوتی ہے سب جل چکا ہوتا ہے، آپ نے متعلقہ اتھارٹیز سے بہت تاخیر سے رابطہ کیا۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ 700 سے زائد اکاؤنٹس سے ویڈیوز وائرل ہوئیں، پولیس کے پاس سائبر کرائم کو دیکھنے کے لیے صرف ایک ادارہ ہے۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب یہ آپ کی ناکامی ہے آپ نے بچوں کو سڑکوں پر آنے دیا، آپ ہمیں 2 دن کا حساب دیں، 14اور 15 اکتوبر کو آپ نے کیا کیا؟ آج بھی ایکس اور ٹک ٹاک پر ویڈیوز پڑی ہیں۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ 2 دن آپ نے کچھ نہیں کیا آپ انتظار کرتے رہے، آپ نے جو دستاویزات جمع کرائی ہیں اس کے بعد آپ نے دو دن کچھ نہیں کیا، 16 اکتوبر سے کام شروع کیا، نیت ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ڈیٹا کو اپ لوڈ ہونے سے روکنا اتنا آسان نہیں ہوتا نا ہی ہمارے پاس اتھارٹی ہے، ہم ایک اکاؤنٹ سے روکیں گے تو دوسرے سے ری پوسٹ ہو جاتی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ جو بچیاں سڑکوں پر آئیں اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو کون ذمہ دار تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں کہا کہ 12 اکتوبر کو ایک پوسٹ سے کہا گیا کہ نجی کالج میں لڑکی کا ریپ ہوا، اسی دن ایس ایس پی متعلقہ کیمپس میں پہنچے اور تحقیقات شروع کیں، فرسٹ ایئر کے بچوں کے اپنے واٹس ایپ گروپ ہیں جن پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں، ہر گروپ میں پوسٹ شیئر ہوئی مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کس کا ریپ ہوا۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ پولیس نے 700 سے زائد اکاؤنٹس کی شناخت کی،انگلینڈ میں بھی اپ لوڈ روکنے کی طاقت نہیں ہے۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ وہاں کی بات مت کریں۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے وزارت داخلہ سے بات کی،انہیں مراسلے لکھے، 700 سے زائد اکاؤنٹس پر ویڈیوز چل رہی تھیں،انہیں بند کرنے کا اختیار پی ٹی اے کے پاس ہے۔ہمارے پاس جتنی اتھارٹی ہے،ہم اس پر کام کرنا شروع ہوگئے تھے، ہم نے کچھ اکاؤنٹس کی شناخت کی، وہ ابھی تک ڈیلیٹ نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ اگر ارادہ ہو تو سارے کام ہوتے ہیں۔

آئی جی پنجاب عثمان انور نے کہا کہ ہمارا کیوں ارادہ نہیں تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک پوسٹ اپ لوڈ ہوئی کہ نجی کالج میں طالبہ سےمبینہ زیادتی کا واقعہ ہوا، علاقے کے اے ایس پی کالج پرنسپل سے ملے،سی سی ٹی وی چیک کی، ہر بچہ کہہ رہا تھا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

انہوں نے عدالت میں کہا کہ دوسرے کیمپس کے بچے بھی اس کیمپس پہنچ گئے، ایک منظم طریقے سے یہ سب کچھ ہوا، جب توڑ پھوڑ ہوئی تو وزیراعلیٰ نے ایک اسپیشل کمیٹی تشکیل دی، پیر کے دن تک کوئی زیادتی کا شکار سامنے نہیں آیا۔افواہ یہ ہے کہ مبینہ زیادتی 9 یا 10 اکتوبر کو ہوئی، 2 اکتوبر کو ایک بچی کا لاہور جنرل ہسپتال میں علاج ہوا، 4 اکتوبر کو یہ بچی ایک نجی ہسپتال جاتی ہے، بچی 5 دن آئی سی یو رہی۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ صرف یہ ایک بچی نہیں آرہی تھی تو کسی نے کہا کہ ہمیں زیادتی کی شکار بچی مل گئی، صرف اس بنا پر کہ بچی کالج نہیں آرہی اسے زیادتی کی افواہ سے جوڑ دیا گیا، اگر آپ کہیں گی تو میں آپ کی اس بچی سے ملاقات کروا سکتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور صاحب نے جو خود کو وکیل کہتے ہیں ان بچیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ویڈیو بنائی، اس وکیل کو مجسٹریٹ کی جانب سے مقدمے سے بری کر دیا گیا، مقدمے سے بری کرنے کا نیا رواج چل پڑا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ہم جسے گرفتار کرتے ہیں وہ اگلے دن ہیرو بن جاتا ہے، ہم شاید اتوار کے دن تعین نہیں کرسکے کہ اتوار کو کیا ہونے جا رہا ہے، ہمارے حوالے سے کچھ ناکامیاں ضرور ہیں۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک منظم طریقے سے ہوا مگر جب یہ ہوا موقع پرستوں نے فائدہ اٹھایا، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں ہراسانی کی کتنی شکایات ہیں؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ 14 اکتوبر کو ایک بچی نے ہراسانی کی درخواست دی۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ اس شخص کے خلاف کتنی شکایات ہیں؟

رجسٹرار لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی نے جواب دیا کہ اس شخص کے حوالے سے ایک ہی شکایت ہوئی ہے، ہم نے مذکورہ شخص کو معطل کر دیا ہے، ہماری ہراسمنٹ کمیٹی بہت عمدہ طریقے سے کام کر رہی ہے۔

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے سوال کیا کہ اس شخص کے پاس طالبہ کا نمبر کیسے آیا؟

رجسٹرار نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی یہ ہے کہ وہ نمبر مذکورہ شخص کا نہیں تھا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتی ہیں، کوئی ڈاکومنٹ دیں۔

رجسٹرار یونیورسٹی نے کہا کہ ہم اس حوالے سے رپورٹ جمع کروائیں گے۔

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ آج بھی کوئی کہتا ہے کہ اس نے یہ واقعہ ہوتے دیکھا ہے تو اس عدالت میں پیش ہو، جو نقصان ہوا ہے کالج کی بلڈنگ کا اس کو کیا والدین پورا کریں گے، اگر کسی بات کا غصہ ہے تو سب سے پہلے اپنا گھر توڑیں۔ایک فیک نیوز پر اگر ایسا ہوا تو انتہائی افسوس ناک ہے، بچوں کے مستقبل کا سوچیں، بچوں کا مستقبل خرابی کی طرف جارہا ہے، بچوں کی تعلیم کا بہت بڑا نقصان ہورہا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے مزید ریمارکس دیئےکہ ایک دن چھٹی ہو جائے تو تعلیمی شیڈول میں اس کو ریکور نہیں کیا جاسکتا،اس وقت جو بچے سڑکوں پر ہیں کیا وہ اس اسٹیٹ آف مائنڈ میں ہیں کہ دوبارہ کالج آسکیں۔ایسے لگتا ہے کہ ایک ماہ تک بچے کالجز کا رخ نہیں کریں گے، کیا والدین دوبارہ بچوں کو کالجز بھیج پائیں گے؟ بچوں کے مستقبل کا سوچیں، فوری ایکشن لیں جہاں طالبات موجود ہیں وہاں مردوں کو موجودگی ممنوع کریں۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے مزید ریمارکس دیئے کہ والدین کا بھروسہ دوبارہ بحال کیجیے۔

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیس بہت اہم ہے اس پر فل بنچ بنارہے ہیں،فل بنچ منگل سے کارروائی پر سماعت کریگا۔

سرکاری وکیل نے استدعا کی کہ ہمیں پیر کا دن دے دیں تاکہ مکمل رپورٹ پیش کی. جا سکے.

عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی۔ڈی جی ایف آئی اے اس معاملے کی تحقیقات کرینگے۔یہ کالج انتظامیہ کا فیلئر ہے،لڑکی کا بیان لیا جائے۔اگر یہ علم ہوا کہ لڑکی کا بیان لینے کیلئےدباؤ ڈالا گیا تو پھر نتائج کیلئے تیار رہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی ایف آئی اے پنجاب یونیورسٹی خودکشی پنجاب کالج زیادتی اور لاہور کالج ہراسگی شکایت کیس کی تحقیقات کرینگے۔یہ دیکھنا ہے کہ آخر یہ بندہ کون ہے کہاں سے آیا؟. 

چیف جسٹس  نے ریمارکس دیئے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فل بنچ ان حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلنے کے حوالے سماعت کرے گا،منگل کے روز فل بنچ ان کیسز پر سماعت کرے گا، عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ جہاں پر بھی خواتین موجود ہے، وہاں میل سٹاف نظر نہ آئے۔

بعد ازاں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے دلائل سننے کے بعد سماعت ملتوی کر دی۔

Watch Live Public News