کس انسان کا خون چوسنا ہے؟ مادہ مچھر انتخاب کیسے کرتی ہے؟

کس انسان کا خون چوسنا ہے؟ مادہ مچھر انتخاب کیسے کرتی ہے؟
لاہور: (ویب ڈیسک) جب مچھروں کی بات آتی ہے تو ذہن میں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کو کیسے نشانہ بناتے ہیں؟ ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔ گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی مچھروں کی افزائش ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ مچھروں کے کاٹنے سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ مچھر ہر سال بڑے پیمانے پر لوگوں کو بیمار کرتے ہیں۔ مچھروں کے خاتمے کے لیے مہمیں بھی چلائی جاتی ہیں لیکن ان سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ صرف مادہ مچھر ہی خون چوستے ہیں، نر مچھر نہیں چوستے۔ ایسے میں یہ سوال ناگزیر ہے کہ مچھر کی مادہ یہ کیسے طے کرتی ہے کہ کس کا خون چوسنا ہے؟ CO2 کے ساتھ انسانوں کا پتہ لگاتا ہے اس سوال کا جواب ایک تحقیق میں مل گیا ہے۔ تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے بتایا کہ مادہ مچھر کو اپنے شکار کا پتہ لگانے کے لیے سونگھنے اور دیکھنے دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہم کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کو باہر نکالتے ہیں، جس کی بو الگ ہوتی ہے۔ مادہ مچھر اس بو کو سونگھ کر انسان کے قریب پہنچ جاتی ہے اور پھر وہ اپنی بینائی کا استعمال کرکے انہیں شکار کرتی ہے۔ 100 فٹ دور سے بو سونگھنے کی صلاحیت سائنسدانوں نے بتایا کہ مادہ مچھروں میں 100 فٹ دور سے بو سونگھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہم ایک سیکنڈ میں جتنی ہوا خارج کرتے ہیں وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا پانچ فیصد ہے۔ اسے سونگھنے پر مادہ مچھر تیزی سے انسان کی طرف اڑتی ہے۔ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مچھر چکر لگانے والی چیزوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ مچھروں کو اس طرح ٹھکانے معلوم ہوتے ہیں ماہرین کے مطابق مادہ مچھر ہمیں اس لیے ڈھونڈتی ہیں کیونکہ وہ انسانی بو کے مختلف اجزا کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مچھروں کو ہمارے جسم کی گرمی سے انہیں ہمارے ٹھکانے کا پتہ چل جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر مادہ مچھروں میں سونگھنے کی صلاحیت ختم ہو جائے تو ہم مچھروں کے کاٹنے سے بچ سکتے ہیں۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔