’گزشتہ الیکشن میں 3 کروڑ 11 لاکھ ووٹ نمائندگی میں تبدیل نہ ہوئے‘

’گزشتہ الیکشن میں 3 کروڑ 11 لاکھ ووٹ نمائندگی میں تبدیل نہ ہوئے‘

اسلام آباد ( پبلک نیوز) فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ( فافن) نے پارلیمان سے مطالبہ کیا ہے کہ متعدد امیدواروں میں سے زیادہ ووٹ لینے والے کسی ایک امیدوار کو منتخب کرنے والے فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ نظام (ایف پی ٹی پی) پر نظر ثانی کرے۔ یہ ناقص انتخابی نظام صحیح معنوں میں عوامی رائے کی نمائندہ اسمبلیاں اور حکومتیں منتخب کروانے سے قاصر ہے۔

فافن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم کی جگہ متناسب نمائندگی کے نظام کو اپنانے کے لیے بحث مباحثے اورمذاکرات کی ضرورت ہے۔ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم میں پڑنے ووٹوں کی اکثریت کسی نمائندگی میں تبدیل نہیں ہوتی۔ متناسب نمائندگی کے نظام میں 95 فیصد سے زائد ووٹ نمائندگی میں تبدیل ہو سکتے ہیں اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلیاں اور حکومتیں عوام کی اکثریت کی حقیقی نمائندہ بھی ہوتی ہیں۔

کہا گیا ہے کہ ایف پی ٹی پی نظام  کی فرسودگی اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے جب انتخابی مقابلہ دو پارٹیوں کی بجائے متعدد جماعتوں کے مابین ہو۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی بہت سی نشستیں ایسی ہیں جہاں سہ رخی یا چہاررخی انتخابی مقابلہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ تناسب نمائندگی کا نظام متعدد سیاسی جماعتوں کے مابین کڑے انتخابی مقابلے کی صورتحال میں بہتر نمائندگی کرنے کے قابل ہے۔

فافن کے مطابق پچھلے چار عام انتخابات کے نتائج کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے پڑنے والے ووٹوں کی اکثریت کسی نمائندگی میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر پڑنے والے پانچ کروڑ اڑتالیس لاکھ ووٹوں میں سے تین کروڑ گیارہ لاکھ ووٹ کسی نمائندگی میں تبدیل نہیں ہوئے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف پی ٹی پی کا نظام عوام الناس کی آزادانہ رائے اور اکثریت کی آواز کو نمائندگی میں بدلنے سے قاصر ہے۔ پاکستان میں کمزور وفاقی  و صوبائی حکومتوں کی تشکیل میں ایک بڑا کردار ایف پی ٹی پی نظام کا ہے۔ پارلیمنٹ میں انتخابات کے ترمیمی بل 2020 پر بحث ہونے والی ہے، پارلیمنٹ کو نمائندگی کے مسائل کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔

فافن کا کہنا ہے کہ منتخب اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے ایف پی ٹی پی کی جگہ کسی ایسے انتخابی نظام کو اختیار کرنا چاہیے جو حقیقی معنوں میں عوامی خواہشات کا نمائندہ ہو۔

Watch Live Public News

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔