کوٹے کے خلاف مظاہروں میں شدت: بنگلہ دیش میں کرفیو نافذ، فوج طلب

bangladesh imposed curfew
کیپشن: bangladesh imposed curfew
سورس: google

ویب ڈیسک : بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف طلبہ کے کئی روز سے جاری مظاہروں پر قابو پانے میں پولیس کی ناکامی کے بعد حکومت نے جمعے سے کرفیو نافذ کرتے ہوئے فوجی دستے تعینات کرنے کا اعلان کردیا۔

ہسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق رواں ہفتے طلبہ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 105 افراد جان سے جا چکے ہیں، جو وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دور اقتدار میں ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔

 حسینہ واجد کے پریس سیکریٹری نعیم الاسلام خان نےمیڈیاکو بتایا کہ ’حکومت نے کرفیو نافذ کرنے اور سویلین حکام کی مدد کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کرفیو فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

اس سے قبل دارالحکومت ڈھاکہ میں پولیس نے مزید تشدد روکنے کی کوشش کے سلسلے میں ایک دن کے لیے تمام عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کرنے کا سخت قدم اٹھایا تھا۔ پولیس سربراہ حبیب الرحمٰن کے مطابق ہم نے ڈھاکہ میں تمام ریلیوں، جلوسوں اور عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔‘ جو کہ ’عوامی تحفظ‘ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تھا۔

تاہم ریلیوں کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالنے کے مقصد سے انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود دو کروڑ آبادی والے اس بڑے شہر کے ارد گرد پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں رک نہ سکیں۔

ڈھاکہ  مارچ میں شریک طلبا رہنماؤں کا کہناتھا کہ ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ ہم شیخ حسینہ کا فوری استعفیٰ چاہتے ہیں۔ ان اموات کی ذمہ دار یہ حکومت ہے۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرغیر ملکی خبر رساں ادارے  کو بتایا کہ ’وسطی بنگلہ دیش کے ضلع نرسنگڈی میں طالب علموں نے ایک جیل کو نذر آتش کرنے سے پہلےدھاوا بولا اور وہاں سے قیدیوں کو رہا کر دیا۔ میں قیدیوں کی تعداد نہیں جانتا لیکن یہ تعداد سینکڑوں میں ہوگی۔‘

 ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال کی جانب سے تیار کی گئی فہرست کے مطابق جمعے کو دارالحکومت میں کم از کم 52 افراد مارے گئے۔ہسپتال کے عملے کی جانب سے دی گئی تفصیلات کے مطابق رواں ہفتے اب تک ہونے والی نصف سے زائد اموات کی وجہ پولیس کی فائرنگ تھی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا ہے کہ طالب علموں پر ہونے والے حملے ’خوفناک اور ناقابل قبول‘ ہیں۔انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’ان حملوں کی غیر جانبدارانہ، فوری اور جامع تحقیقات ہونی چاہییں اور ذمہ داروں کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔

 دوسری طرف شیخ حسینہ واجد کی انتظامیہ نے رواں ہفتے سکولوں اور یونیورسٹیوں کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

 سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے’یہ نوجوان آبادی میں برسوں سے بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کا نتیجہ ہے۔ ملازمتوں کا کوٹہ ایک دھاندلی زدہ نظام کی علامت بن گیا ہے، جس کو حکومت نے ان کے خلاف بنایا ہے۔ اور اب نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔


 

Watch Live Public News