واشنگٹن ( ویب ڈیسک ) ہم اکثر ہیکرز کے کارناموں کے بارے میں سنتے رہتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ 1999 میں پندرہ سالہ امریکی لڑکے جوناتھن جوزف نے امریکی محکمہ دفاع اور ناسا کے سسٹم کو ہیک کر لیا اور 1.7 ملین ڈالرز کی انفارمیشن چوری کر لی تھی۔ تفصیلات کے مطابق جوناتھن جوزف جیمز صرف پندرہ سال کا تھا جب اس نے جون 1999 ء میں ناسا اور امریکی محکمہ دفاع کے سسٹم کو ہیک کر لیا اس کے ساتھ کچھ پرائیویٹ کمپنیاں اور سکول کے چند دوست شامل تھے ، اس لڑکے کا تعلق میامی سے تھا اور 'کامریڈ' کے نام سے یہ اپنا کام کیا کرتا تھا ۔ اس نے ناسا کے تیرہ کمپیوٹرز میں سے 1.7 ملین ڈالرز کی مالیت کی انفارمیشن چوری کر لی ۔ اس کی وجہ سے ناسا کو اکیس دن تک اپنے سسٹم کو بند رکھنا پڑا اور اس کے لئے دوبارہ سوفٹ ویئر کی تیاری میں مزید اکتالیس ہزار ڈالرز خرچ کرنے پڑے ۔ جو سورس کوڈ جیمز نے وہاں سے چرائے ان میں انٹرنیشنل سپیس سنٹر میں زندہ رہنے اور ٹمپریچر اور نمی کو کنٹرول کرنے والے سسٹم کی تمام معلومات شامل تھیں ۔ ناسا کو اس پروگرام کا سورس کوڈ دوبارہ بنانا پڑا ۔ ڈیفنس تھریٹ ریڈکشن ایجنسی کو کریک کرنے والا بھی وہ دنیا کا پہلا شخص تھا امریکہ کو درپیش خطرات کا جائزہ لینا اس ڈویژن کے ذمہ ہے ۔ جوزف نے تین ہزار سائبر میسجز کو ڈی کوڈ کیا جس سے اسکو ادارے کے کئی ورکرز کے یوزر نیم اور پاسورڈ مل گئے جس کی مدد سے اس نے دس ملٹری کمپیوٹرز تک بھی رسائی حاصل کر لی ۔ جب اس کو پکڑا گیا اس وقت سائبر جرائم کے لئے مکمل قانون موجود نہیں تھا اور چونکہ وہ ابھی کم عمر تھا اس لئے اس پر نابالغ مجرموں والی صرف دو قانونی شکوں کا اطلاق ہو سکا ۔ اس کو چھ ماہ تک گھر میں قید رکھا گیا اور ناسا اور محکمہ دفاع کے نام معافی نامے لکھوائے گئے اس کے علاوہ اس کے کمپیوٹر کے استعمال پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ،18 مئی 2008ء کو جوناتھن اپنے باتھ روم میں مردہ حالت میں پایا گیا اس کے سر پر گولی کا نشان تھا اسکے والد نے یہ بیان دیا کہ وہ ڈپریشن کا شکار تھا اور اس کی خودکشی بھی اسی وجہ سے تھی ۔