لاہور: (ویب ڈیسک) ملکہ ترنم نور جہاں کو مداحوں سے بچھڑے اکیس برس ہو گئے لیکن آج بھی وہ اپنی سریلی آواز کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں بستی ہیں۔ نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو دنیا سے رخصت ہوئیں اور وہ کراچی میں ڈیفینس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور نشان امتیاز بھی عطا کیا تھا۔ نورجہاں 21 ستمبر 1926ء کو قصور میں پیدا ہوئیں۔ ماں باپ نے ان کا نام اللہ وسائی رکھا اور چار سال میں انھیں موسیقی کی تعلیم کے لئے خاندانی استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا۔ سات برس کی عمر میں انھیں موسیقی کی اتنی شد بد ہو چکی تھی کہ وہ اپنی بڑی بہن عیدن اور کزن حیدر باندی کے ساتھ سٹیج پر گانا گانے لگی تھیں۔ ابتدا میں وہ مختار بیگم، اختری بائی فیض آبادی اور دوسری گلوکاروں کے مقبول گیت گاتی تھیں۔ آٹھ نو برس کی عمر میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا جہاں انھوں نے سٹیج پر پرفارم کرنا شروع کر دیا۔ یہیں انھیں موسیقار جی اے چشتی مل گئے جنھوں نے نورجہاں کی آواز کو مزید سنوارا اور انھیں چند طبع زاد گیتوں کی دھن بنا کر دی۔ لاہور میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد یہ بہنیں اپنے بھائی محمد شفیع کے ساتھ کلکتہ چلی آئیں۔ اس وقت کلکتہ میں مختار بیگم کا طوطیٰ بول رہا تھا۔ اس خاندان نے جلد ہی مختار بیگم تک رسائی حاصل کر لی اور مختار بیگم کو ان بہنوں کی آواز پسند آئی۔ ان کی سفارش پر انھیں کے ڈی مہرا کی فلم کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ اس کمپنی نے اللہ وسائی کا نام 'بے بی نور جہاں' رکھا جبکہ عیدن اور حیدر بائی اپنے اصل نام کے ساتھ ہی گاتی رہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تینوں بہنوں نے جس پہلی فلم میں کام کیا اس کا نام 'شیلا عرف پنڈ دی کڑی' تھا۔ اس فلم میں مرکزی کردار پشپا رانی اور استاد مبارک علی خان نے ادا کیے تھے۔ 'شیلا عرف پنڈ دی کڑی' ایک کم بجٹ والی فلم تھی چنانچہ اس فلم کے لیے کوئی نیا گیت نہیں کہا گیا اور پرانے لوک گیتوں سے ہی کام چلایا گیا۔ اس فلم میں نورجہاں نے ایک گانے 'لنگھ آجا پتن چنہاں دا او یار، لنگھ آ جا' پر پرفارم کیا جسے پسند کیا گیا اور اگلے تین چار سال تک انھیں فلموں میں ثانوی کردار ملتے رہے۔ چند فلموں میں انھیں گانے کا موقع بھی ملا جن میں 'مصر کا ستارہ'، 'مسٹر اینڈ مسز بمبئی'، 'ناری راج'، 'ہیر سیال' اور 'سسی پنوں' کے نام شامل تھے۔ ماسٹر غلام حیدر نے 'گل بکاؤلی' کے کامیاب تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے 'خاندان' کے زیادہ تر گانوں کو نورجہاں کی آواز سے آراستہ کیا مگر جس فلم سے نور جہاں کو پہچان ملی وہ دل سکھ ایم پنچولی کی فلم 'گل بکاؤلی' تھی۔ اس فلم کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے جبکہ نغمہ نگار ولی صاحب تھے۔ اس فلم کے لیے جب نورجہاں نے اپنا پہلا نغمہ صدا بند کروایا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ اس گانے کے بول تھے 'شالا جوانیاں مانیں، اکھا نہ موڑیں، پی لیں'۔ 1939ء میں جب یہ فلم نمائش پزیر ہوئی تو پنجاب کا بچہ بچہ نورجہاں سے واقف ہو چکا تھا۔ ماسٹر غلام حیدر نے 'گل بکاؤلی' کے کامیاب تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے 'خاندان' کے زیادہ تر گانوں کو نورجہاں کی آواز سے آراستہ کیا۔ اس فلم کے جس اشتہار میں انہیں 'نغموں کی رانی' لکھا گیا ہے وہ لاہور کے روزنامہ انقلاب میں 5 فروری 1942 کو شائع ہوا تھا اور جناب امجد سلیم علوی کے توسط سے بہم ہوا ہے۔ اس میں نورجہاں کو نغموں کی رانی لکھا گیا ہے۔ یہ فلم اسی برس نمائش پزیر ہوئی اور اسی کی عکس بندی کے دوران نورجہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ فلمی شائقین خصوصاً نورجہاں کے مداحوں کے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ سے موجود رہا ہے کہ نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب کب اور کس نے دیا۔ 25 جون سنہ 1945ء کو ہفت روزہ چترا میں اس فلم کا جو اشتہار شائع ہوا تھا اس میں نور جہاں کے نام سے پہلے 'ملکۂ ترنم' کا خطاب درج ہے۔ روایت کے مطابق اسے ضیا سرحدی نے تحریر کیا تھا اور نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب عطا کرنا بھی انھیں کا کارنامہ تھا۔ فلم ’بڑی ماں‘ کے اس اشتہار کی دستیابی کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے نور جہاں کو اٹھارہ سال کی عمر میں ملکۂ ترنم تسلیم کیا جا چکا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد نورجہاں نے فلم 'چن وے' سے اپنے پاکستانی فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انھی نے دی تھی۔ بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں ’گلنار‘، ’دوپٹہ‘، ’پاٹے خان‘، ’لخت جگر‘، ’انتظار‘، ’نیند‘، ’کوئل‘، ’چھومنتر‘، ’انارکلی‘ اور ’مرزا غالب‘ شامل ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کر لیا۔ ایک تاریخ کے مطابق نورجہاں نے 995 فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے۔ بطور گلوکارہ ان کی آخری فلم 'گبھرو پنجاب دا' تھی جو 2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔ نورجہاں کے کریڈٹ پر لاتعداد غزلوں کے علاوہ 27 ملی نغمے بھی موجود ہیں۔