سویلینز ملٹری ٹرائل کیس میں عمران خان کےخطوط کی گونج،جسٹس امین کے اہم ریمارکس

سویلینز ملٹری ٹرائل کیس میں عمران خان کےخطوط کی گونج،جسٹس امین کے اہم ریمارکس
کیپشن: سویلینز ملٹری ٹرائل کیس میں عمران خان کے خطوط کی گونج،جسٹس امین کے اہم ریمارکس

ویب ڈیسک:سپریم کورٹ  میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت  کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ  آپ کا مؤکل  کہتا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں، ان سے بات کروں گا جبکہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا؟۔

تفصیلا ت کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے آج بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بینچ کا حصہ ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 1962 کے آئین میں ایوب خان کا دور تھا اس وقت لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟

عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ اس وقت بھی بنیادی حقوق اوریجنلی دستیاب نہیں تھے۔سویلینز کی حد تک کریمنل دفعات پہ ٹرائل عام عدالت ہی کر سکتی ہے۔ آرڈیننس میں بہت ساری دفعات تھی جو آرمڈ فورسز کے حوالے سے تھیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ یہاں تعلق سے کیا مراد ہے؟

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرمی ایکٹ خود کو سبجیکٹ کر سکتا ہے یا نہیں، کس قانون کے تحت کیا جا سکتا ہے وہ متعلقہ ہے یا نہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ ٹو ون ڈی میں سویلینز کا تعلق کیسے بنایا گیا ہے؟

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ٹو ون ڈی کے حوالے سے ایف بی علی میں کچھ نہیں کہا گیا، ٹرائل دفعات پر نہیں اسٹیٹس پر ہوگا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ محرم علی کیس اور راولپنڈی بار میں دہشتگردی کی دفعات تھیں۔ فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا ان کی سیکیورٹی کسی آرمی پرسنل کے کنٹرول میں ہوگی؟

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ ان سے تحقیقات پولیس افسر کرے گا؟ جہاں ملٹری کی شمولیت ہو وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 103 ایسے ہیں جن کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے، میڈیا پر ہم نے فوٹیجز دیکھی ہیں۔

اس دوران فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔

وقفے کے بعد عزیر بھنڈاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فوجی کے حلف میں لکھا ہوتا ہے افسر کا حکم زندگی سے زیادہ ضروری ہے۔

جسٹس حسن رضوی نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں فوج دوران جنگ ہی جواب دے سکتی ہے گھر پر حملے کا نہیں۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے نکلنا ہے کہ فوج ہی سب کچھ کرسکتی ہے۔کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوا تو دفاع کیوں نہیں کیا گیا؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک بات کر رہے ہیں آپ کے مؤکل دوسری بات کرتے ہیں، آپ کا مؤکل کہتا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں ان سے بات کروں گا۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کمرہ عدالت سے جو باہر ہے اس پر بات نہیں کروں گا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ سیاست کی بات نہیں حقیقت کی بات ہے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایف بھی علی کیس میں اعتزاز احسن نے آپ کو بتایا کہ ٹرائل کیسے ہوتا تھا،آج بھی بانی پی ٹی آئی کا جیل ٹرائل ہورہا ہے، فئیر ٹرائل تو دور کی بات، جیل ٹرائل میں کاغذ کا ٹکڑا تک نہیں لے جانے دیا جاتا۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کے جانے دیتے تو خط کہاں سے آجاتے ہیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آج کل تو خطوط کا تنازع بھی چل رہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آپ صرف بنیادی حقوق کے معاملے پر دلائل دیں۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کورٹ مارشل میں تو موت کی سزا بھی سنائی جاتی ہے، نہ جج کی کوئی معیاد، نہ ٹریننگ اور نہ ہی قانونی سمجھ بوجھ ہوتی ہے،سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیا جاتا، صرف آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی جاسکتی ہے، ہائیکورٹ میں رٹ کے دائرہ اختیار کو استعمال کیا جاسکتا ہے مگر وہ محدود ہوتا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی؟ کیا کوئی رکن اسمبلی آج تک آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا؟

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اب معاملہ عدالت کے سامنے ہے۔جرم کی نوعیت پر نہیں ملزم کے اسٹیٹس کو مد نظر رکھ کر فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا۔ ملزم کا اسٹیٹس دیکھنا ہوگا کہ وہ آرمڈ فورسز سے تعلق رکھتا ہے یا سویلین ہے۔ امریکی عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں ملزم کے اسٹیٹس کو دیکھ کر ٹرائل پر فیصلہ دیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ مگر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے مطابق تو گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر سویلین کا ٹرائل ہوسکتا ہے، گٹھ جوڑ ثابت ہونے پر ٹرائل کا مطلب ملزم کا اسٹیٹس نہیں جرم دیکھ کر ٹرائل ہوتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اپنے دلائل میں کہا کہ فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ فوج اپنے لوگوں تک تو یہ اختیار استعمال کرسکتی ہے مگر سویلین کی حد تک نہیں، لیکن اگر فوج عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی تو کسی کے لیے بھی نہیں کرسکتی۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 کے تحت آرمڈ فورسز کے لوگوں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے تفصیلی فیصلے میں یہی بات کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر آرمڈ فورسز میں لوگ آئین کے آرٹیکل 8(3) کے تحت آتے ہیں تو انہیں آرٹیکل 10 اے بھی حاصل نہیں،اس کا مطلب ہے کہ ان کا ٹرائل پھر چاہے جہاں مرضی ہو؟

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ سلمان اکرم راجا نے دلائل میں بھارت کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ ٹربیونل میں اپیل جاتی ہے۔ بھارت میں اپیل کا حق پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے خود دیا یا عدالتی ہدایات تھیں؟

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے۔ کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا۔اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ میں نے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق ایک فیصلے میں تجویز دی۔ میری تجویز پر ہائیکورٹ کے ججز کی کمیٹی بنی اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے انٹرویو شروع ہوئے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا۔سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کے لیے قانون سازی کی۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے، ایک کے بعد دوسرا نوٹیفکیشن آرہا تھا، یہ تو ہماری حالت تھی۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یورپی یونین نے ہمیں جی ایس پی پلس کا درجہ دیا، یورپی یونین کی یہ رعایت بین الاقوامی کنونشن پر عمل داری سے مشروط ہے، ہمارے جی ایس پی پلس کو خطرہ لاحق ہے، یورپی یونین سویلین کے ملٹری ٹرائل کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی حقوق آئینی تقاضا ہے کسی بین الاقوامی فائدے سے مشروط نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ بین الاقوامی ذمہ داریاں ادا کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے، یہ سپریم کورٹ کا کام نہیں۔

اس موقع پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل مکمل کرلئے اور سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔فیصل صدیقی کل دلائل شروع کریں گے۔

Watch Live Public News