ویب ڈیسک : صدر کی بہادری نے جمہوریت کو بچا لیا۔۔۔۔جنوبی امریکی ملک بولیویا میں حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کو ناکام بنادیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق بدھ شام چار بجے کے قریب بکتر بند گاڑیاں صدارتی محل کے دروازے تک پہنچ گئی تھیں اور فوجیوں کو عمارت میں داخل ہوتے دیکھا گیا۔ تاہم صدر لوئس آرس اور دیگر حکام کی جانب سے مذمت کے بعد وہ پیچھے ہٹ گئے۔
فوج کے واپس چلے جانے کے بعد حکام نے فوج کے کمانڈر جنرل جوان جوس زونیگا کو گرفتار کرلیا۔
فوج کے وسطی لاپاز چوک میں پلازہ موریلو واپس لوٹ جانے کے بعد صدر آرس نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا، "ہم بولیویا ئی فوج کی کچھ یونٹوں کی بے قاعدہ نقل و حرکت کی مذمت کرتے ہیں۔ جمہوریت کا احترام کیا جانا چاہئے۔"
انہوں نے بغاوت کے دوران ہی صدارتی محل میں موجود فوجیوں میں سے ایک کو نیا فوجی کمانڈر مقرر کردیا، جس نے فوجیوں کو اپنے بیرکوں میں واپس لوٹ جانے کا حکم دیا۔
فوج کی واپسی کے ساتھ ہی آرس کے ہزاروں حامی قومی پرچم لیے ہوئے لاپاز چوک پر جمع ہونے لگے۔
آرس نے صدارتی محل سے انہیں خطاب کرتے ہوئے کہا،"جو جمہوریت ہم نے جیتی ہے، اسے کوئی چھین نہیں سکتا۔"
جب صدر نے نئے فوجی کمانڈر کا تقرر کیا تو زونیگا خود بخود برطرف کردیے گئے۔
مقامی ٹیلی ویژن چینلوں نے قبل ازیں آرس کی زونیگا کے ساتھ تلخ کلامی کی فوٹیج دکھائی تھیں۔
ان فوٹیجز میں آرس کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے،"میں آپ کا کپتان ہوں اور میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ اپنے فوجیوں کو واپس لے کر چلے جائیں۔ میں خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔"
بولیویا میں اس ہفتے یہ افواہ گردش کررہی تھی کہ زونیگا کی ملازمت خطر ے میں ہے۔
یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بوریل بغاوت کی کوشش کی مذمت کرنے والے اولین غیر ملکی رہنماؤں میں شامل ہیں۔
آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس (او اے ایس) کے صدر لوئس المارگو نے بھی بغاوت کی کوشش کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے کہا،"او اے ایس کا جنرل سکریٹریٹ بولیویا میں ہونے والے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے۔ فوج کو قانونی طورپر منتخب سول طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے۔"
ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچز نے کہا کہ ان کی حکومت " بولیویا میں فوج کی کارروائی کی شدید مذمت کرتی ہے۔" انہوں نے حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کی پیش کش کی۔
چلی کے صدر گیبریل بورک نے بھی بولیویا کی صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے،"برادر ملک میں جمہوریت اور جائز حکومت کے لیے اپنی حمایت" کا اظہار کیا۔
واشنگٹن نے بھی اس واقعے پر فریقین سے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔ امریکی قومی سلامتی کے ایک ترجمان نے کہا، "امریکہ بولیویا کی صورت حال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے اور پرامن رہنے کا مطالبہ کرتا ہے