برلن(ویب ڈیسک)جرمنی میں پیزا ڈیلیوری بوائے بننے والے سابق افغان وزیر سید سادات کی کہانی نے دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے۔
سید سادات بہتر مستقبل کی امید میں گزشتہ دسمبر میں جرمنی جانے سے پہلے افغان حکومت میں وزیر مواصلات تھے۔ اب وہ مشرقی شہر لیپ زگ میں پیزا ڈیلیوری مین ہیں۔نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے سید احمد شاہ سادات نے کہا کہ انکے گھر میں کچھ افراد نے ان کے فیصلے پراس وقت تنقید کی تھی، جب انہوں نے دو سال تک افغان حکومت میں خدمات سر انجام دینے کے بعد 2018 میں عہدہ چھوڑ دیا تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں نوکری، نوکری ہی ہوتی ہے۔
برطانوی، افغان دوہری شہریت کے حامل سید سادات کا کہنا تھا کہ مجھے وزارت چھوڑنے کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے، سابق افغان صدر کے قریبی حلقے کے ارکان سے اختلافات کی وجہ سے افغان حکومت چھوڑ دی تھی۔ انہوں نے کہا میں امید کرتا ہوں کہ دوسرے سیاستدان بھی اسی راستے پر چلیں گے اور صرف چھپنے کی بجائے عوام کے ساتھ ملکر کام کریں گے۔
واضح رہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افغان شہری انخلا کی پروازوں میں شامل ہونے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں ہونے والی اس افراتفری کے بعد سابق افغان وزیر کی کہانی کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ہے، یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے اعلان کے بعد سے جرمنی میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد میں 130 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے.
سید سادات کے دوہری شہریت کے حامل ہونے کامطلب یہ تھا کہ وہ برطانیہ منتقل ہونے کا انتخاب کر سکتے تھے جہاں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا تھا تاہم وہ 2020 کے آخر میں جرمنی منتقل ہو گئے۔ سید سادات کے مطابق انہوں نے جرمنی کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ انہیں توقع تھی کہ یہاں پر ان کا معاشی مستقبل بہتر ہوگا اور وہ یہاں ٹیلی کام اور آئی ٹی کے شعبوں میں کام کر سکیں گے۔
اس پس منظر کے باوجود سید سادات نے جرمنی میں ایسی نوکری تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے جو ان کے تجربے سے مماثل ہو۔آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن میں ڈگری کے ساتھ سید سادات نے متعلقہ فیلڈ میں کام ملنے کی توقع کی تھی تاہم جرمن زبان نہ آنے کی وجہ سے انہیں ملازمت نہ مل سکی، انکا کہنا تھا کہ زبان سب سے اہم حصہ ہے۔
سید سادات ہر روز ایک لینگوئج سکول میں چار گھنٹے جرمن زبان سیکھتے ہیں اور شام میں چھ گھنٹے لیفرنڈو ریسٹورنٹ کے لیے کھانا سپلائی کرتے ہیں۔ شہر کی ٹریفک میں سائیکل سیکھنے کے چیلنج کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے چند دن دلچسپ لیکن مشکل تھے۔ انہوں نے کہا کہ جتنا آپ باہر جائیں گے اور جتنا آپ لوگوں سے ملیں گے، اتنا ہی آپ سیکھیں گے۔