بھارت کی آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدہ

بھارت کی آبی جارحیت اور سندھ طاس معاہدہ

محمد راحیل معاویہ

بھارت نے شروع دن سے ہی پاکستان کی آزادی کو اس امید کے ساتھ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پائے گا. تقسیم کے دوران کی گئیں ناانصافیوں پر بھارت اتنا پرامید تھا کہ وہ پاکستان کو محض چند سال سے زیادہ سلامت نہیں دیکھ رہا تھا. مگر مدینے کے بعد یہ واحد ریاست پاکستان ہے جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔

اللہ کا خاص کرم ہے کہ وطن عزیز پاکستان کو کسی قسم کی سازشوں دشمن کی چالوں سے نقصان نہیں پہنچا بلکہ یہ سلامت ہے، مضبوط ہے، قائم ہے اور انشاءاللہ رہے گا۔ تقسیم کے وقت آبی لحاظ سے ظاہری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آتا تھا۔

پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کو مل رہی تھیں. بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرکے پنڈت نہرو کی امیدوں کے عین مطابق ہر اس دریاؤں پر قبضہ کرلیا جو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرتے تھے، پجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھے جس پر بھارت قابض ہوچکا ہے۔

بلکہ دریائے سندھ خود بھی کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کے قبضے کے نتیجے میں لداخ کے مقام پر بھی بہتا ہے۔ یہ وہ ہیڈورکس تھے جو پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رہے تھے جو پاکستان کے حصے میں آئے تھے، بھارت ان ہیڈ ورکس پر قابض ہو کر اس پوزیشن میں تھا کہ وہ جب چاہتا پاکستان کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا۔

بھارت پاکستان کو تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے کیسے جانے دے سکتا تھا. اس نے آزادی کے فوراً بعد پاکستان کا پانی روک لیا. بھارت نے پاکستان کو آنے والا پانی بغیر کسی انتباہ کے راوی اور ستلج سے روک لیا، کسانوں نے ابھی گرمیوں کی فصلیں بونی شروع کیں تھیں، بھارت کی اس آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں. بعد میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بناء پر ہوا ہے۔

لیکن پاکستانیوں کا خیال تھا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا تھا اور اس کا مقصد پاکستان کو تباہ و برباد اور اپنا محتاج کرنا تھا کہ وہ دوبارہ بھارت میں انضمام پر مجبور ہو جائے۔ اس سے پاکستان کو ناقابل فراموش سبق ملا اور اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ اپنا دریائی آبپاشی نظام قائم کرے گا. پاکستان اور بھارت کے درمیان تکرار جاری تھی۔

یہ پانی کی قیمت اور دریائی پانی وصول کرنے کے اوقات کے حوالے سے نہ ختم ہونے والے تنازعات تھے۔ اس سلسلے میں عارضی بنیادوں پر جو معاہدے ہوئے وہ پاکستان کے لیے غیر تسلی بخش تھے۔ کیوں کہ جب برصغیر کے تمام مغربی علاقوں میں پانی کی سپلائی میں کمی ہوتی تھی تو بھارت پاکستان کا پانی اپنے استعمال کے لیے روک لیتا تھا، جب موسمی سیلاب پنجند دریاؤں میں امڈ آتے تو یہ پانی پاکستان کے سالانہ کوٹے میں سے منہا کر لیا جاتا تھاجو پاکستان کے کسی کام نہیں آتا تھا. اپنی بقا کی خاطر لاچاری کی صورت میں پاکستان نے دریائے سندھ پر کام کرنا شروع کر دیا ۔

1951ء میں ولڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک سندھ طاس نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانے کے لیے آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاہدے پر پہچنے کے لیے کوشش کریں، تاہم یہ جلد واضح ہو گیا کہ بھارت کسی ایسے معاہدے کا خواہش مند نہیں تھا جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنڑول ختم ہوجائے. جب کہ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بالادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا یہ گفت و شنید بڑی لمبی اور تھکا دینے والی تھی اور دونوں ممالک اپنی اکتا دینے والی ایسی دلیلیں اور تجویزیں پیش کر رہے تھے جس سے مخالف فریق کے مفادات اور دریاؤں کی بالادستی پر ضرب پہنچتی تھی۔

1960ء تک دونوں ملکوں میں مفادات کا توازن تقسیم کی نسبت ہموار ہوچکا تھا اور آخر ورلڈ بینک بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس کے معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گیا. دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، دریائے سندھ اور پنجند کے دو جہلم اور چناب پر پاکستان کی حاکمیت تسلیم کی گئی. بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤمیں کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔

بیاس، راوی اور ستلج کا پانی بھارت کو مل گیا، اس معاہدے کے تحت بننے والے مستقل انڈس کمیشن کا ہر سال ایک اجلاس ہونا لازمی طے پایا تاکہ دونوں ممالک کے متنازع آبی معاملات مل بیٹھ کر حل ہوسکیں. اس معاہدےکے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طورپر168 ملین ایکڑفٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا. جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ ،جہلم اور چناب سے سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کاحق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہےجبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔

اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے، 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے بعد 113 دفعہ مذاکرات کیے جاچکے ہیں، یاد رہے کہ انڈیا کی طرف سے دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کشن گنگا اور دریائے چناب کے پانی پر 850 میگا واٹ رتلے پن بجلی منصوبے تعمیر کر رہا ہے۔ ان دونوں منصوبوں پر پاکستان نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔

اس کے علاوہ ان دریاؤں پر آب پاشی کے 30 سے زائد منصوبے بھی مکمل کئے گئے ہیں، حال ہی میں آنے والی خبروں کے مطابق اب بھارت 15 ارب ڈالر کی لاگت سے مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کرہا ہے جس میں 1856 میگاواٹ کا سوا لکوٹ پاور پروجیکٹ بھی شامل ہے، کشن گنگا، رتل، میار، لوئر کلنائی، پاکال دل ہائیڈروالیکٹرک پلانٹ اور وولر بیراج نیوی گیشن پروجیکٹ پر بھی کام کا آغاز کررہا ہے جن کا مقصد بظاہر تو بجلی بنانا ہے لیکن اس کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا بتایا جاتا ہے۔

مشرقی دریاؤں سے ہر سال اوسطاً 19ملین ایکٹر فٹ پانی پاکستان میں آتا تھا لیکن سندھ طاس معاہدے سے قبل اور اس کے بعد بھارت نے راوی اور ستلج پر کئی ڈیمز اور کنال تعمیر کرکے پانی کے بہاؤ کو راجستھان اور دیگر ریاستوں کی جانب موڑ دیا جس کے بعد ان دریاؤں سے سالانہ پانی کی آمد تین لاکھ ایکڑ فٹ سے بھی کم رہ گئی۔

بھارت کی اس آبی جارحیت پر اور سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی پر اس معاہدے کے ضامن عالمی بینک سے 2018 سے اب تک کئی دفعہ ثالثی کی درخواست کی جاچکی ہے مگر عالمی برادری کی خاموشی بھارت کو مزید جارحیت کا موقع فراہم کررہی ہے.

ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔