عدلیہ میں مداخلت کا تدارک ہوناچاہیے،ایجنسی کیلئےہیرپھیرنہیں کرنےدیں گے، چیف جسٹس

عدلیہ میں مداخلت کا تدارک ہوناچاہیے،ایجنسی کیلئےہیرپھیرنہیں کرنےدیں گے، چیف جسٹس
کیپشن: اسلام آباد ہائیکورٹ کے6 ججز کےخط سےمتعلق ازخود نوٹس پر سماعت جاری

ویب ڈیسک:  اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت  کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے۔عدالت کی آزادی یقینی بنائیں گے، اندر اور باہر سے حملہ نہیں ہونا چاہیے۔

 تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے 2 صفحات پر مشتمل نوٹ میں بنچ میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے، عدالتی وقار کا احترام کریں، جس نے عدالت میں گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے۔وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ 184 تین کے تحت کیس کیسے لگایا گیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام موجود ججز پر بنچ تشکیل دیا جائے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس میں بیٹھنے سے معذرت کی اور وجوہات بھی دیں، گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2 ججز موجود نہیں تھے۔

لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے: چیف جسٹس

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے،سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے، ان پر بھی لوگوں نے دباؤ ڈالا، میں اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں ہوں۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس بننے کے بعد فل کورٹ بنائی، پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور اعوان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی سفارشات دیکھی ہیں؟۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں نے ہائیکورٹ کی سفارشات ابھی نہیں دیکھیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے دریافت کیا کہ اب اس معاملے کو کیسے آگے چلائیں؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل یہ سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائیکورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آ رہی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کو اپنی مرضی کے راستے پر دھکیلنا بھی مداخلت ہے۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس موقع ہے کہ اس معاملے کو حل کریں اندرونی دباؤ ہو  یا بیرونی دباؤ ہو ہمیں اسے دور کرنا ہے، ہمیں ہائیکورٹس اورعدلیہ کو بااختیار بنانا ہے، ہمارے پاس اس سے متعلق سنہری موقع ہے اور ہمیں کوئی مخصوص طریقہ کاربنانا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ صرف مداخلت نہیں بلکہ ہمارے دو ججز کو ٹارگٹ کیا گیا، اگرکوئی بھی مثبت تجاویز دینا چاہتا ہے چاہے وہ پارٹی (کیس میں) ہے یا نہیں وہ دے سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں مداخلت کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر میرےکام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔

جسٹس اطہر نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کو عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں رہا کسی نے مداخلت نہیں کی، جسٹس بابر ستار کےساتھ جو کچھ  ہورہا ہے وہ سامنے ہے۔

سپریم کورٹ کا ہائیکورٹ کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائی کورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟

اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ ہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس اعجاز اسحٰق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے، کوئی جواب نہیں ہوگا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائیکورٹ کے ججز اٹھا رہے ہیں، انہوں نے منصور اعوان کو ہدایت دی کہ آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی گئی چیزوں پر نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کیلئے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ میں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، ماتحت عدلیہ بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں، کیا یہ مداخلت نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشاء کی گئیں،ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔

ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟: جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 2018 میں ہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں، جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ بنچ کے 2 ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا، ہم نے نوٹس لیا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، فیصلہ ایک نہیں 10دے دیں کیا ہوگا؟

آج اس مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا: جسٹس منصور علی
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آج اس مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا.

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب ہائیکورٹ خود کیوں نہیں کرتے، سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہےحل کریں، ہائیکورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے، ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے تجاویز لکھتے وقت بڑی جرات دکھائی ہے، یہ اس مقدمے اور اس سوموٹو کیس کے ثمرات ہیں۔

جسٹس منصور علی نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے فون رکھ کر بات کرو یہ کس قسم کا کلچر ہے؟ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے مجھے کوئی نوٹ کر رہا ہے اس کمرے میں ڈیوائس لگی ہے یہ کیوں ہوتا ہے، کیا ایسا ہونا چاہیے؟ کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہیے؟

جو جج دباؤ برداشت نہیں کر سکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے: جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ جو جج دباؤ برداشت نہیں کرسکتا اسے کرسی چھوڑ دینی چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں 5 سال ایک ماہ بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا، معلوم ہے کتنی مداخلت ہوتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میرے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔

انٹیلیجنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو ذمہ دار وزیراعظم اور کابینہ ہے: جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں وزیراعظم کے ماتحت ہوتی ہیں، انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے، آئین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کی ساکھ بھی برقرار رکھنی ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے، ملک کے محافظ ہیں، یہ ہمارے سپاہی ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کے خلاف کس کس نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی؟ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہیں، 4 سال سے زائد عرصے تک نظر ثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں ہوئی، کوئی وضاحت ہے کہ کیوں تقریباً 5 سال سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوئی؟ کیا اس کیلئے بھی ایگزیکٹو ذمہ دار ہے؟

جسٹس فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے،دنیا کو کیا نہیں پتہ تھا کہ اس وقت پاکستان کو چلا کون رہا تھا؟ مگر شاید آپ لوگوں نے انہیں بچانا تھا یا شاید نہیں۔

دھرنا کیس میں لکھ کر دیا تھا کہ فیض حمید اس کے پیچھے ہیں: چیف جسٹس

جسٹس فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ میری ذات پر انگلی نا اٹھائیں، میں نے دھرنا کیس میں لکھ کر دیا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے پیچھے تھے، یہ معاملہ اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا گیا،میری اہلیہ نے بھی پولیس اسٹیشن میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا، جب لوگ پٹڑی سے ہٹ جائیں تو پھر قانون سازی کی ضرورت پڑ جاتی ہے،حکومت آخر کب قانون سازی کرے گی؟

جسٹس فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی دوسری طاقتیں مضبوط بنتی جائیں گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کس قانون کے تحت وجود میں آئے ہیں اور اگر مداخلت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے پچھلی سماعت پر کہا کہ 2017-2018 میں سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی،اس وقت حکومت میں کون تھا؟۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ حکومت بے بس تھی؟

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں کچھ کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے، جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دیئے جاتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ دباؤ کبھی بھی نہیں ہوگا اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے،سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں، کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔

سچ بولنے پر جج کیخلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں: جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جب کوئی جج بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا؟۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جو بھی ملوث ہو اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی ایکشن لیں، جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں۔

جسٹس فائز عیسٰی نے ریمارکس دیئے کہ وہ ریفرنس ہمارے پاس ہی آتے ہیں، ہمارے پاس میکانزم ہے، ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے 3 ہائیکورٹس کی تجاویز پڑھیں، کسی نے نہیں کہا کہ مداخلت نہیں ہو رہی، اس کا مطلب ہے کہ مداخلت ہو رہی ہے۔

مداخلت کا دروازہ بند کرنے کیلئے ہمیں ایک نظام بنانا ہوگا: جسٹس منصور
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کسی ہائیکورٹ نے یہ بھی نہیں کہا کہ مداخلت کا مسئلہ ہم خود حل کر لیں گے، ہمیں ایک نظام بنانا ہوگا جس سے مداخلت کا دروازہ بند ہو جائے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذکر سے روکتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل الگ فورم ہے اسے تجاویز دینی ہیں تو الگ دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہاں انتظامی نہیں جوڈیشل سائیڈ پر بیٹھے ہیں کوئی بھی آرڈر پاس کر سکتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم کونسل کے فیصلوں کو ختم بھی کرتے ہیں ان میں ترمیم بھی کرتے ہیں، ہم اہم معاملے پر ایگزیکٹو کو ایڈوائس دے سکتے ہیں۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہی سب کریں گے۔

عدالت میں اکبر الہ آبادی کے شعر کا حوالہ دیا گیا۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں

تو ہو جاتے ہیں بدنام۔

اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ یہی جسٹس بابر ستار کے ساتھ ہو رہا ہے،سوشل میڈیا پہ پتہ نہیں کیا کیا لکھا جا رہا ہے لوگ فریق بنے ہوئے ہیں، یہ لوگ پارٹی کیوں بن جاتے ہیں؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ کچھ لوگ خاموشی سے عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، وہ اب ختم ہو چکے ہیں، ججز کی تعیناتی کیلئے جب ہم خفیہ اداروں سے رپورٹیں منگواتے ہیں تو ہم ان کو مداخلت کا موقع دیتے ہیں، جب آپ مانیٹرنگ جج لگوائیں گے، جب جے آئی ٹیز میں ان کو شامل کریں گے تو ان کو مداخلت کا موقع ملے گا، کچھ لوگ ذاتی مفادات کیلئے آئینی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہیں۔کچھ لوگ ایک خاص وقت میں ایک مقام پر کھڑے تھے، آج ایک دوسرے مقام پر کھڑے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب میرے دو سوال ہیں، لاسٹ ٹائم وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کی، پریس کانفرنس میں کہا کہ 6 ججز نے مس کنڈکٹ کیا۔

 اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر پریس کانفرنس میں 6 ججز کے خط کو مس کنڈکٹ کہا گیا تو غلط تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائیکورٹ کا جواب سب سے سنجیدہ ہے، وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں آتی ہیں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں نے تصدیق کی ہے کہ ججز کے مس کنڈکٹ کی بات پریس کانفرنس میں نہیں ہوئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار سے تجاویز مانگ لیتے ہیں، کوئی اور فریق رائے دینا چاہے تو دے سکتا ہے، ہم اس معاملے کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کے خط پر تحریری جوابات دے دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کہ جن لوگوں نے درخواستیں دائر کی ہیں خود اس پر فیصلہ کر لیں، سب فریقین کو سننا مشکل ہو جائے گا، تحریری معروضات دے دیں۔

وکیل لاہور ہائیکورٹ بار حامد خان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ کو فل کورٹ تشکیل دینی چاہیے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ لکھوایا کہ پانچوں ہائیکورٹس نے اپنی تجاویز پیش کیں، اٹارنی جنرل الزامات کا جواب یا تجاویز دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اگر کوئی خفیہ ادارے کا نام آیا اور وہ جواب جمع کرانا چاہے تو اٹارنی جنرل کےذریعے کرا سکتا ہے۔