20سال بعد انتخابات میں شکست،صدراردغان نےبڑابیان دیدیا

20سال بعد انتخابات میں شکست،صدراردغان نےبڑابیان دیدیا
کیپشن: 20سال بعد انتخابات میں شکست صدراردغان نےبڑابیان دیدیا

ویب ڈیسک: ترکیہ کے بلدیاتی انتخابات میں صدر اردغان اور ان کی جماعت کو بڑا دھچکا، دو دہائیوں سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے بعد بدترین شکست ہوگئی۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردغان نے شکست تسلیم کرلی۔
 رپورٹ کے مطابق رجب طیب اردغان نے کہا ہے کہ دو دہائیوں سے اقتدار میں رہنے کے بعد ان کی پارٹی کے لیے ووٹ ایک ’ٹرننگ پوائنٹ‘ تھا۔ملک بھر سے سامنے آنے والے جزوی نتائج میں ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کو اردغان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی پر واضح برتری حاصل ہے۔
استنبول کے میئر اور اپوزیشن کے اہم رہنما اکرم امام اوغلو نے اپنی دوبارہ فتح کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً تمام بیلٹ بکس کھل گئے ہیں۔
انہوں نے اپنے حامیوں کے ایک پرجوش ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’کل ہمارے ملک کے لیے بہار کا ایک نیا دن ہے۔‘

استنبول کے میئر امام اوغلو کو میئر کی دوڑ میں تقریبا دس فیصد پوائنٹس کی برتری حاصل ہے، حکمران اتحاد پارٹی نے تین سو چالیس اور سی ایچ پی نے دو سو چالیس اضلاع میں برتری حاصل کی۔

انقرہ میں موجودہ اپوزیشن میئر منصور یاواش کی جیت کا جشن منانے کے لیے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔

70 سالہ اردغان نے استنبول کو دوبارہ فتح کرنے کے لیے ذاتی طور پر مہم چلائی تھی۔ یہ شہر ترکیہ کی معیشت کا پاور ہاؤس ہے اور ترک صدر نے یہی سے بطور میئر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔تاہم شدید مہنگائی اور معاشی بحران نے حکمراں جماعت کے اعتماد کو چوٹ پہنچائی ہے۔
استنبول میں اپوزیشن جماعت کے ہیڈکوارٹر کے باہر ایک بڑا ہجوم موجود تھا، جو ترکیہ کے جھنڈے لہرا کر اور ٹارچز چلا کر انتخابی نتائج کی خوشی منا رہا تھا۔
اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد امام اوغلو تالیاں بجاتے نکلے اور ’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘ کے نعرے لگائے۔ یہ نعرہ انہوں نے  2019 میں پہلی بار اے کے پی سے سٹی ہال لینے کے وقت استعمال کیا تھا۔
52 سالہ اکرم امام اوغلو کو  2028 میں ہونے والے اگلے صدارتی انتخابات سے قبل اردغان کی جماعت کے سب سے بڑے حریف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
دارالحکومت انقرہ میں اپوزیشن سے ہی تعلق رکھنے والے میئر منصور یاوس نے اپنے حمایتیوں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے فتح کا دعویٰ کیا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ’انتخابات ختم ہو گئے ہیں، ہم انقرہ کی خدمت جاری رکھیں گے۔‘
منصور یاوس کا کہنا تھا کہ ’نظر انداز کیے جانے والوں نے اس ملک پر حکومت کرنے والوں کو واضح پیغام دیا ہے۔‘
انہیں 46.4 فیصد بیلٹ باکسز کھلنے تک 58.6 فیصد ووٹ پڑے تھے جبکہ ان کے حریف اور اے کے پی کے امیدوار کو 33.5 فیصد ووٹ ملے تھے۔
اپوزیشن کے حامیوں نے ترکیہ کے تیسرے بڑے شہر ازمیر کے ساتھ ساتھ جنوبی شہر انطالیہ میں بھی فتح کا جشن منایا۔
صدر رجب طیب اردغان نے اپنی جماعت کے ہیڈکوارٹر میں اپنے حامیوں کے سامنے خطاب کرتے ہوئے اس انتخابی دھچکے کا اعتراف کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ہم وہ نتائج حاصل نہیں کر سکے جو چاہتے تھے،ہم یقیناً قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ ہم ضد کرنے، قوم کی مرضی کے خلاف کام کرنے اور قوم کی طاقت پر سوال اٹھانے سے گریز کریں گے۔