ججز خط کیس، مداخلت برداشت نہیں،،چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے کاعندیہ دیدیا

ججز خط کیس، مداخلت برداشت نہیں،،چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے کاعندیہ دیدیا
کیپشن: ججز کےخط پرسپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی براہ راست سماعت شروع

پبلک نیوز: عدالتی امور میں مداخلت کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کیس کی براہ راست سماعت کے دوران  چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مخاطب ہو کر کہا کہ خط کے معاملے کو کیسے آگے لے کر چلنا ہے، اس پر مشاورت کر لیں اور سماعت کے لیے فل کورٹ بھی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

 تفصیلا ت کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بنچ  نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بنچ کا حصہ ہیں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس اپنے پہلے سوموٹو نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ 

یاد رہے کہ 30 مارچ کو ہائیکورٹ ججز کے خط کے معاملے پر جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی سربراہی میں ایک رکنی انکوائری کمیشن بنایا گیا جس کی منظوری کابینہ نے دی تھی، وزیر اعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملاقات میں انکوائری کمیشن پر اتفاق ہوا تھا۔

عدالتوں کو مچھلی منڈی نہ بنائیں ، چیف جسٹس کی وارننگ

سماعت کا آغاز  پر  چیف جسٹس پاکستان  قاضی فائز عیسی نے کہا کہ پہلےپریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں۔ جس پر حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست داٸر کر رکھی ہے۔ جس پر  چیف جسٹس نے کہا کہ اب وہ زمانے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی۔ہم نے  کیسز فکس کرنے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ابھی تو اس کیس کی سماعت کا آغاز ہوا ہے آپ کی درخواست بھی لگ جائے گی،۔عدالتوں کو مچھلی منڈی نہ بنائیں۔چیزیں پہلے ہی میڈیا میں چھپ جاتی ہیں انہوں نے کہا کہ میں تو کبھی کسی کے پریشر میں نہیں آتا۔

  سپریم کورٹ کے اختیارات حکومت کو دینے کا تاثر غلط ہے ، چیف جسٹس

یہ تاثر کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات حکومت کو یا کمیشن کو دے دیے بلکل غلط ہے،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو آئین کا آرٹیکل 175 پڑھنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے قراردیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات آرٹیکل  184 سے شروع ہوتے ہیں،۔آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے پاس انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلط تاثر دیا گیا ۔کمیشن کے پاس بہت سے اختیارات ہیں۔کمیشن کی ساری کاروائی جوڈیشل ہو گی۔چیف جسٹس نے جسٹس ر ناصر الملک،جسٹس ر تصدق جیلانی کے نام تجویز کئے  جسکے بعد جسٹس ر تصدق جیلانی سے وزیر قانون کی ملاقات کی،جسٹس ر تصدق جیلانی نے ٹی او آرز مانگے۔وزیر اعظم نے ٹی او آرز کے بعد دوبارہ جسٹس تصدق جیلانی سے رجوع کرنے کی ہدایت کی جس پر جسٹس ر تصدق جیلانی نے ہفتہ کے روز ٹی او آرز پر اتفاق کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے بعد کچھ ذاتی حملے شروع ہوگئے۔کون شریف آدمی ایسے ماحول میں خدمت کریگا۔ایک دباو سوشل میڈیا سے بھی آتا ہے۔عجیب و غریب باتیں شروع کردی گئیں۔سمجھ نہیں آرہا ہم کہاں جارہے ہیں۔جسٹس ر تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں انہوں نے جواب نہیں دیا اور انکار کردیا۔

4 سال فل کورٹ نہیں ہوئی اس وقت بارز اور وکلاء کہاں تھے ؟

انہوں نے کہا کہ ایک بات واضح کرتا چلوں کی عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔چار سال تک سپریم کورٹ میں فل کورٹ نہیں ہوئی۔اس وقت ساری بارز اور وکلاء کہاں پر تھے۔

انہوں نے پھر واضح کیا کہ یہ بھی بتا دیں کہ جو انکوائری کمیشن کے لیے نام ہم نے تجویز کیے تھے جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جی بلکل جسٹس ر تصدق جیلانی سمیت دیگر نام عدلیہ کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے۔وزیراعظم نے خود کوئی نام نہیں دئیے۔وزیر اعظم نے چیف جسٹس کو ہی نام دینے کا کہ اورکابینہ کی میٹنگ کے بعد جسٹس ر تصدق جیلانی کا نام فائنل کیا گیا۔

 وزیراعظم سے ملاقات چھپ کر  نہیں کی ، چیف جسٹس

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات انتظامی نوعیت کی تھی۔آفیشل انتظامی میٹنگ کا درجہ دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات جوڈیشل نوعیت کی نہ تھی۔ اٹارنی جنرل صاحب آپ سے رجوع کیا تو آپ نے اچھا کردار ادا کیا۔ 

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ مداخلت کبھی برداشت نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو یا چیف جسٹس بن جائے یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے۔

 چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم وزیر قانون اٹارنی جنرل سے انتظامی طور پر ملاقات کی،۔چھپ کر یا گھر میں بیٹھ کر نہیں ملاقات کی۔وزیر اعظم کو زیادہ ووٹ حاصل ہیں اس لئے وہ انتظامیہ کے سربراہ ہیں۔ 

 وکلا کہتے ہیں سووموٹو لے لو ، پھر وکلا کو وکالت چھوڑ دینی چاہیے، چیف جسٹس

 انہوں نے کہا کہ  وکلاء کہہ رہے کہ چیف جسٹس سو وموٹو ایکشن لیں جو وکیل یہ بات کرتے ہیں انہیں وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔وہ زمانے گئے جب مرضی چیف جسٹس کی ہوا کرتی تھی، 

جیسے ہی خط ملا رمضان میں افطاری کے بعد ہائی کورٹ ججز سے ملاقات کی اس ملاقات میں  جسٹس منصور علی شاہ بھی شریک تھے۔ہم رمضان کے بعد بھی ملاقات کر سکتے تھے، لیکن اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملاقات کی۔عدلیہ کی آزادی کیلئے ہماری زیرو برداشت پالیسی ہے

 چیف جسٹس نے  اعتزاز احسن کے نمائندے اور وکیل احمد حسین کو بولنے سے روک دیا اور ریمارکس کے دوران کہا کہ میں آپ کو وکلا کے نمائندے کے طور پر نہیں لے سکتا، چیف جسٹس

وکلا کے نمائندے کے طور پر بار کے صدر موجود ہیں۔
چیف جسٹس کی اٹارنی جنرل کو فل کورٹ کے بعد جاری پریس ریلیز پڑھنے کی ہدایت کی ۔ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم شاید پروپیگنڈا میں گوئبلز کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں، 

جس دن خط آیا اسی دن ہائیکورٹ ججز سے ملاقات ہوئی۔اس سے زیادہ چستی سے شاید کسی نے کام کیا ہو۔ہم اس معاملے کو اہمیت نہ دیتے تو کیا یہ میٹنگ رمضان کے بعد نہیں ہو سکتی تھی۔

عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کیا نہ کروں گا،  چیف جسٹس قاضی فائزعیسی 

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کاکہنا تھا کہ ججز نے خط میں کہا معاملے کی انکوائری کرکے ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔انکوائری پولیس، ایف آئی اے یا پھر کمیشن کر سکتا ہے۔ ججز نے کھل کر بات نہیں کی لیکن اشارہ کر دیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ کبھی کسی جج کو توہین عدالت کی کارروائی سے نہیں روکا۔تو ہین عدالت کی کارروائی کیلئے سپریم کورٹ سمیت کسی کو اجازت کی ضرورت نہیں۔توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار ہائی کورٹ کو آئین نے دیا ہے۔جس عدالت کی توہین ہو رہی ہے کارروائی بھی وہی کر سکتی ہے۔

 جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کے خط میں 19 مئی 2023 کی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال سے ملاقات کا بھی ذکر ہے۔ملاقات میں جسٹس اعجاز الاحسن بھی موجود تھے جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ وضاحت کر دوں کہ میں سینئر ترین جج تھا میرے بعد جسٹس سردار طارق سینئر تھے۔ہم دونوں سینئر ججز کو چھوڑ کر جسٹس اعجاز الاحسن کو ملاقات میں شامل کیا گیا،مجھ سے اس معاملے پر کبھی کوئی مشاورت بھی نہیں ہوئی تھی۔ہائی کورٹ کے ججز سے ملاقات ہوئی لیکن میرے پاس بطور سینئیر ترین جج کوئی اختیار ہی نہیں تھ۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی  کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو عدالت میں نہیں بلا سکتے،  جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ وزیراعظم کو آئینی استثنی حاصل ہے چیف جسٹس نے کہ کہ آج آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں۔حکومت کو نوٹس دینگے تو اٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آ جائیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتا نہیں کیا نہ کروں گا۔کسی  کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں، ۔پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں بھی احترام چاہتے ہیں۔

شریف آدمی پر حملے ہونگے تو وہ چلا جائیگا، فائز عیسی چیف جسٹس پاکستان

اٹارنی جنرل نے جب وضاحت کی کہ  عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد میں زرہ برابر بھی کوتاہی نہیں ہوئی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روک دیا انہوں نے کہا کہ یہ بات نہ کریں،۔

 چیف جسٹس نے کہ لوگ شرطیں لگا رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہونگے۔ ہم نے الیکشن کا کیس سنا اور بارہ دن میں تاریخ کا اعلان ہوگیا،۔سب سے ان کا کام کرائیں گے، کسی کا کام خود نہیں کرینگے۔تین سو وکلاء کا خط چل رہا ہے اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا پر ایسا تاثر بنایا گیا کہ کہ جیسے وفاقی حکومت اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہ رہی ہے  جس پر چیف جسٹس نے کہ شریف آدمی پر حملے ہوں گے تو وہ تو چلا جائے گا وہ کہے گا آپ سنبھالیں،۔پتہ نہیں ہم نے اس قوم کو تباہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔

 جسٹس تصدق جیلانی کا خط سپریم کورٹ میں پیش

جسٹس تصدق جیلانی کا کمیشن سربراہی سے معذرت پر مبنی لکھا گیا خط عدالت میں پیش کر دیا گیا ۔ چیف جسٹس کے حکم پر اٹارنی جنرل نے جسٹس تصدق جیلانی کا خط پڑھ کر سنایا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تصدق جیلانی نے مجھے اختیار دیا کہ معاملے کو حل کروں،میں مشاورت پر یقین رکھتا ہوں۔

اسی طرح ہائی کورٹ ججز نے ملاقات میں کہا آپ دونوں جو مناسب سمجھیں وہ فیصلہ کریں۔  اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز خط میں بیان کچھ واقعات ایک سال یا اس سے کچھ پرانے ہیں ۔ان واقعات کے شواہد جمع کرنے ہونگے اس لئے کمیشن تشکیل دینا مناسب سمجھا۔عدالت کو آج بھی جو معاونت درکار ہے وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔ایک طرف عدلیہ کی آزادی دوسری طرف حکومت کی ساکھ بھی سٹیک پر ہے۔اس بات کی نفی کرتا ہوں کہ حکومت کی عدلیہ کی آزادی کیخلاف کوئی پالیسی نہیں ہے۔

  ججز کو دباؤ فیملی ، رشتہ داروں ،سوشل میڈیا اور میڈیا سے بھی آسکتا ہے، چیف جسٹس

 چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ ججز کا خط کئی مرتبہ پڑھا ہے اس کے کئی پہلو ہیں۔ خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا ہے میں صرف اس کا چیئرمین اور ممبر ہوں۔تصدق جیلانی کی بات سے متفق ہوں کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو آئینی اختیار حاصل ہے۔ خط میں جسٹس شوکت صدیقی کیس کا بھی تذکرہ ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹایا،۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ ہائی کورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ججز کو دباؤ ساتھی ججز، اہلخانہ، بچوں اور دوستوں سے بھی آ سکتا ہے۔آج کل نئی وباء پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا اور میڈیا کا بھی پریشر ہوتا ہے۔

 اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سرینا عیسی نے مرزا شہزاد اکبر اور  فیض حمید کے بارے بیان ریکارڈ کروایا۔اسوقت کی وفاقی حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔اس سارے دور میں دو چیف جسٹس پاکستان ریٹائرڈ ہو گئے۔ آپ نے 24گھٹوں میں معاملے کو ٹیک اپ کیا ۔وزیراعظم کی مکمل سپورٹ اس معاملے پر حاصل ہے۔

 جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہت کچھ ہو رہا ہے مگر کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے مرزا افتخار کیس کی بات کی  تھی،آپ کی حکومت کب سے ہے آپ اس کیس کو منطقی انجام تک لیکر گئے؟  چیف جسٹس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیس میرے متعلق ہے نہیں چاہتا تاثر جائے دباو ڈال رہا ہوں۔ جس پر  جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مجھےبات پوری کرنے دیں،یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شتر مرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا ہے اب کچھ تو کرنا ہی ہے، جسٹس منصور علی شاہ  کا مزید کہنا تھا کہ ججز اپنے چیف جسٹس کو بتائیں اور وہ کچھ نہ کرے تو اس کا بھی کچھ کرنا چاہیئے۔

جسٹس مندوخیل

 جسٹس مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں جو ہوا اس سے سبق سیکھیں لیکن مستقبل کیلئے لائحہ عمل تو بنائیں۔ ججز کے اس خط کو عدلیہ کی آزادی کیلئے سنہری موقع سمجھنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا حکم سمجھیں کہ عدلیہ میں کوئی مداخلت برداشت نہیں ہو گی۔ انھوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آج اس معاملے پر سات رکنی بینچ اس لیے بیٹھا کیونکہ اسلام آباد میں سات ججز ہی موجود تھے۔
انھوں نے اس معاملے پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے اس معاملے پر فل کورٹ بنا دیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ججز کے خط میں میرے چیف جسٹس کے دور میں کیسی مداخلت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اگر میرے دور میں کوئی مداخلت ہوئی تو بتائیں پھر دیکھیں اس کا کیا ہوتا ہے۔
آج کی سماعت نمٹاتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم 29 اپریل کو سماعت کا آغاز دوبارہ کریں گے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے معاونت کیلئے تحریری معروضات مانگ لی۔
اس کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔