امریکا کا ایرانی جوہری تنصیبات تباہ کرنے  کیلئے فوجی حملے پر غور، بڑا انکشاف

امریکا کا ایرانی جوہری تنصیبات تباہ کرنے  کیلئے فوجی حملے پر غور، بڑا انکشاف

(ویب ڈیسک ) Axios  سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ   امریکا  ایرانی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے لئے فوجی حملے پر غور کر رہا ہے، اعلی سطحی اجلاس میں آپشن پیش کردئیے گئے  ہیں۔

Axios  سائٹ  نے متعدد ذرائع کے  حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ  امریکی صدر جو بائیڈن نے  20 جنوری کو آفس چھوڑنے سے قبل ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کی تھی۔

ذرائع نے مزید کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ملاقات کے دوران بائیڈن کو مختلف آپشنز پیش کیے، لیکن صدر نے کسی کارروائی کی اجازت نہیں دی، اور فی الحال فوجی حملوں پر کوئی فعال بات چیت جاری نہیں ہے۔

ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ ملاقات کسی  نئی انٹیلی جنس کے تناظر میں نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد ایران کی جانب سے یورینیم کو ہتھیاروں کے درجے تک افزودہ کرنے کی صورت میں  پیشگی اقدامات اٹھانے کے حوالے سے تھا۔

مبینہ طور پر اسرائیل کا یہ بھی ماننا ہے کہ کے بعد ایران "الگ تھلگ" ہو گیا ہے اور خطے میں اس کا اہم اتحادی حزب اللہ حالیہ IDF حملے سے نمایاں طور پر کمزور ہو گیا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق شام کے بشار الاسد کی معزولی، حزب اللہ  کا زور ٹوٹنے کے بعد   ایران خطے میں الگ تھلگ ہوچکا ہے جس کےباعث وہ اپنے جوہری پروگرام کو تیز کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

 یادرہے 2015 میں،   ایران نے بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا، جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس نے پابندیوں میں جزوی ریلیف کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا۔

تاہم، 2018 میں، امریکا یکطرفہ طور پر ٹرمپ کے تحت ہونے والے معاہدے سے دستبردار ہو گیا۔ تب سے، ایران نے اپنی افزودگی کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، اور اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔

 گذشتہ ماہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ، رافیل گروسی نے کہا کہ ایران نے "ڈرامائی طور پر" اپنی یورینیم کی افزودگی کو 60 فیصد تک خالص کر دیا ہے، اس پیشرفت کو "انتہائی تشویشناک" قرار دیا ہے۔

دوسری طرف ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی  کاکہنا ہے کہ تین یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی 13 جنوری کو جنیوا میں جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے والے ہیں۔

یہ مذاکرات نومبر 2024 میں کشید گی  کے بعد دوبارہ ہورہے ہیں،  جب تہران نے یوروپی حمایت یافتہ قرارداد پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ناکافی تعاون کا الزام لگایا تھا۔ 

اس کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیوں کو بڑھانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔

تہران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے۔

Watch Live Public News