ویب ڈیسک: لاپتہ افراد کی بازیابی کیس میں بڑا حکم آگیا۔ سنگل بینچ کے افسران پر کیے گئے جرمانوں کے فیصلے کے خلاف وفاق کی تمام انٹرا کورٹ اپیلیں خارج کردی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق لاپتہ افراد کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریوں کی عدم بازیابی پر سیکرٹری دفاع، داخلہ، چیف کمشنر اور پولیس افسران پر جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج کر دیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ وفاقی حکومت اور افسران کی انٹراکورٹ اپیلیں خارج ہیں۔ رٹ پٹیشنز کی سنگل بینچ میں سماعت ہوگی۔
دریں اثناء لاپتہ افراد کی بازیابی کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔ چیف جسٹس کے سربراہی میں 2 رکنی بینچ نےکیس پر سماعت کی۔ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بینچ کا حصہ تھے۔
سنگل بینچ کی جانب سے شہریوں کی عدم بازیابی پر سیکرٹری دفاع ، داخلہ، چیف کمشنر اور پولیس افسران پر جرمانوں کے خلاف اپیلیں دائر ہیں۔ لاپتہ آئی ٹی ایکسپرٹ ساجد محمود ، عمر عبد اللہ ، مدثر نارو و دیگر کی بازیابی کیس کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جی ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب کوئی خوشخبری ہے، لاپتہ افراد آگئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق تاحال پیش رفت نہیں۔
لاپتہ شہریوں کی عدم بازیابی پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہم ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کئی کئی سال گزر گئے ہیں، کہاں ہیں لاپتہ افراد۔ ہر بار آپ آکر کہہ جاتے ہیں کہ پروگریس ہو رہی ہے۔ کتنا وقت دیں آپکو آپ ہر بار وقت مانگ لیتے ہیں۔ پہلے کئی بار اٹارنی جنرل پیش ہو چکے ، خالد جاوید خان بھی پیش ہو چکے۔ ہم کیا کریں پھر جو جرمانہ عائد ہوا اسے ڈبل کردیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وزیراعظم کو بلانے کا عندیہ دیدیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر کیا کریں وزیراعظم کو بلالیں۔ ہم تو پھر یہی کر سکتے ہیں کہ جرمانہ ڈبل کردیں۔ کیا کریں ہم پھر وزیر اعظم کو بلا لیں۔ کئی سالوں سے یہ کیسز زہر سماعت ہیں نہ لاپتہ افراد بازیاب ہوئے کہ کوئی پیش رفت ہوئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کوئی پروگریس تو بتائیں ناں ہوا کیا ہے، آپ کیا کر رہے ہیں۔ ایک کام کرتے ہیں سپریم کورٹ کو بھیج دیتے ہیں۔ آپ ایک کام کریں جو کام آپ نے ہمارے ساتھ کیا مہربانی کرکے آپ وہ سپریم کورٹ کے ساتھ کریں۔
وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ایک ماہ کا مزید وقت دینے کی استدعا کر دی۔
ایڈیشن اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک مہینے کا وقت دیا جائے زیادہ اچھا ہو گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپیشل بینچ کبھی کبھی لگتا ہے ہر مرتبہ آپ کی نئی کہانی ہوتی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آپ نے کہا تھا اپیل قابل سماعت نہیں ہے وہ کس بنیاد پر کہا آپ نے۔ ہمیں کوئی پروگریس تو بتائیں نہ کہ ہم نے یہ یہ کیا ہے۔ آئین کے مطابق سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ مہربانی کر کے آپ نے جو ہمارے ساتھ کیا ہے وہ سپریم کورٹ کے ججز کے ساتھ بھی کریں۔