ویب ڈیسک: قومی اسمبلی اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے 18 اضافی وزارتوں اور 1500 ارب روپے کی سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انگریزی میں کہاوت ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے،میں اپنی نسل کا تیسرا نمائندہ ہوں جو اس ایوان میں منتخب ہوا ہوں اگر اس ایوان کو طاقتور بنائیں گے تو پاکستان کے عوام کو طاقتور بناتے ہیں،بزرگوں سے التماس کرتا ہوں کہ پارلیمان اور عوامی مفاد میں فیصلے کریں، ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اچھے فیصلوں کی میراث دینی چاہئیے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کل ایوان کے ماحول پر بہت افسوس ہو رہا تھا،کل یہاں احتجاج کے نام پر گالیاں دی گئیں،پاکستان کے عوام مایوس ہوں گے،پاکستان ایک خطرناک مرحلے پر پہنچ چکا،معاشی بحران سے ہم سب واقف ہیں،وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی تقریر میں بنیادی نکات عوام تک نہیں پہنچ سکے،فارم 47 یا 45 کی وجہ سے نہیں کارکنوں کے خون پسینے کی وجہ سے یہاں آئے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی مہم کے دوران شہید ہونے والے کارکنان کا نام لے کر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نظام بنانے کے ضرروت ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کارکنان شہید نہ ہوں۔
بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم، قائد حزب اختلاف، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو مبارکباد دی اور کہا کہ پیپلز پارٹی وزیراعظم کے میثاق برائے قومی مصالحت کے تصور کی حمایت کرتی ہے،پاکستان کے عوام نے پیغام دیا کہ وہ لڑائیوں سے تھک چکے ہیں،اگر آپ کو مخصوص نشستیں مل بھی جائیں آپ پیپلز پارٹی کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتے،ووٹ اس لئے نہیں ملا کہ گالم گلوچ اور شور شرابہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہو سکا،اٹھارویں ترمیم کے تحت وفاق میں کچھ وزارتیں تحلیل نہیں ہو سکیں،18 وزارتوں کو 2015 میں تحلیل ہونا چاہئیے ، ان 18 وزارتوں کا سالانہ خرچہ 328 ارب روپے ہے،حکومت میں پیپلز پارٹی کے وزراء نہیں ہیں،پیپلز پارٹی کے وزراء ہونے چاہئیں۔
جمشید دستی نے بلاول بھٹو زرداری کو لقمہ دیا۔جس پر بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ آ جائیں تو ہم بھی آ جائیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کوئی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے سزا دلوائیں،اگر میں بھی آئین کی خلاف وری کروں تو مجھے بھی سزا دلوائیں،اگر یہ ہم سے آئین و جمہوریت کی بات کریں گے تو میں کہوں گاآپ کون ہوتے ہیں بولنے والے،آج انہیں جمہوریت یاد آ رہی ہے، یہ ہمیں لیکچر نہ دیں،یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی پر جھوٹا الزام لگائیں اور ہم جواب بھی نہ دیں، بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے نعرے بازی کی۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ میرے ایک ہی جملے پر یہ چیخ اٹھے ہیں،حوصلہ رکھیں ، ہمارا جواب تو سن لیں،وزیراعظم یا حکومت کی طرف سے کوئی غیرآئینی یا غیر جمہوری اقدام اٹھایا گیا تو میں ان کا دفاع کروں گا،اگر یہ غیرجمہوری بات کریں گے تو میں ان کے سامنے کھڑا ہو جاؤں گا۔جب تک سیاستدان ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو کوئی اور عزت نہیں کرے گا۔اگر ہم سیاست کے دائر میں رہ کر سیاست نہٰں کریں گے تو باقی اداروں سے بھی امید نہ رکھیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے 9 مئی کے واقعات پر چیف جسٹس کی زیر نگرانی جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انگریزی کی کہاوت ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے،کل وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی دوران احتجاج اور گالیوں پر افسوس ہورہا تھا۔قائد حزب اختلاف کہہ رہے ہیں کہ ان کی تقریر پی ٹی وی پر نہیں دکھائی گئی،یہ روایت عمران خان نے ڈالی تھی اس کو جاری نہیں رکھنا چاہیے،جمال رئیسانی پر فخر کرتا ہوں سب سے کم عمر نمائندہ ایوان میں موجود ہے۔وزیراعظم، وزیراعلی پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ بلوچستان کو مبارکباد دیتا ہوں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آپ سب کو پاکستان کی جمہوریت معیشت اور وفاق کو بچانا پڑے گا،وزیراعظم نے میثاق مفاہمت کی بات کی ہم اس کی تائید کرتے ہیں،اپوزیشن سے اپیل ہے کہ اس پراسس کا حصہ بنیں،ہمیں رولز آف دی گیم طے کرنے چاہئیں،کرکٹ میں بھی ہار جیت ہوتی ہے ہار کو قبول کرنا چاہیے،پاکستان کی عوام نے ایسا فیصلہ سنایا ہے کہ آپ کو مل کے فیصلے کرنے پڑیں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ اگر آپ کو مخصوص نشستیں مل بھی جائیں تو آپ پیپلز پارٹی کے بغیر وزیراعظم کی نشست پر نہیں بیٹھ سکتے،عوام نے ان کو اکثریت نہیں دی،شہباز شریف نے آپ کو مل بیٹھنے کی ہدایت کی ہے،اگر آپ نہیں بیٹھیں گے تو پھر آپ تنقید نہیں کرسکے ہیں،عمر ایوب کو اپنے منشور کے بارے میں اتنا پتہ نہیں جتنا مجھے اپنے منشور کا پتہ ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کو جو اقدامات کرنے چاہیے تھے وہ نہیں ہوئے،صوبائی حکومت میں جانے والی وزارتیں وفاق میں ہیں،18 وزارتوں کو تحلیل ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوئیں۔
دوسری طرف قومی اسمبلی کے ایوان میں بات کرنے اور کارروائی سے متعلق رولز کی کاپیاں ارکان کے سامنے رکھ دی گئیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ مقصد نئے ارکان کو اسمبلی کےرولز سے آگاہ کرنا ہے، رولز کی کاپیاں تمام ارکان کی نشستوں پر پہنچا دی گئی ہیں۔