ویب ڈیسک: فیس بک پرخواتین کے ایک مقبول سپورٹ گروپ، سول سسٹرز پاکستان کی فاؤنڈر نے کہا ہے کہ فیس بک نے تین لاکھ سے زیادہ خواتین ممبرز پر مشتمل ان کے گروپ کو ڈیلیٹ کر دیا ہے،جہاں خواتین معاشرتی طور پر ممنوعہ تصور کیے جانے والےموضوعات پر آزادی سے گفتگو کیا کرتی تھیں۔
سول سسٹرز پاکستان نامی گروپ 2013 میں تشکیل دیاگیا تھا اور یہ ان خواتین کے لیے ایک سپورٹ گروپ کے طور پر کام کر رہا ہے جو جنس، طلاق، اور گھریلو تشدد کے بارے میں معلومات کو شئیر کرتی ہیں- ایسے مسائل جنہیں پاکستان میں اکثر عوامی سطح پر بات کرنے کے لیے نامناسب سمجھا جاتا ہے۔
گروپ کی فاؤنڈر کنول احمد نے ایک بیان میں بتایا کہ "یہ گروپ پاکستان میں ان خواتین کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے جن کے پاس جانے کے لیے اب کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔"
کنول احمد کے مطابق، فیس بک نے بدھ کی رات انہیں ایک پوسٹ سے منسلک غیر تخصیص شدہ "دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی" کے بارے میں انتباہ کرنے کے بعد گروپ کو ڈیلیٹ کر دیا۔
کنول کا کہنا ہےکہ ”انہوں نے یہ تک نہیں بتایا کہ وہ کون سی پوسٹ تھی۔” انہوں نے کہا ” وہ دراصل گمنام ذاتی کہانیاں اور پوسٹس تھیں۔”
کنول احمد کو 2018 میں فیس بک نے گروپ کی کامیابی کی وجہ سے کمیونٹی لیڈر کے طور پر منتخب کیا تھا۔
’سول سسٹرز پاکستان‘ گروپ اس سے قبل ان افراد کی تنقید کا نشانہ بن چکا ہے جنہوں نے اس پر طلاق اور ایسے رویوں کے فروغ کا الزام عائد کیا ہے جو روایات اور مردوں کے وضع کردہ اصولوں کو چیلنج کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے خواتین سے متعلق ادارے نے 2020 میں کہا تھا کہ پاکستان میں 80 فیصد سے زیادہ خواتین نے عوامی مقامات پر ہراساں کیے جانے کی اطلاع دی تھی، جب کہ پاکستان کی وزارت صحت کے 2017-2018 کے سروے کے مطابق، تقریباً ایک چوتھائی خواتین کو اپنے شوہر یا ساتھی سے جسمانی یا جذباتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسری جانب ملک میں آن لائن سینسر شپ عروج پر ہے۔ پاکستان میں فروری میں ہونے والے قومی انتخابات کے فوراً بعد سے، جن میں دھاندلی کے الزامات لگے تھے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم X کو حکومت کی طرف سے مسلسل رخنہ اندازی کا سامنا ہے۔
ٹیلی کمیونیکیشن حکام کی جانب سے TikTok پر "نامناسب مواد" کی وجہ سے دو بار پابندی لگائی گئی ہے جنہیں صرف اس یقین دہانی کے بعد اٹھایا گیا کہ پلیٹ فارم مواد کو بہتر طریقے سے اعتدال میں لائے گا۔
ٹک ٹاک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر اور دسمبر کے درمیان 18 لاکھ سے زیادہ ویڈیوز ہٹائی گئیں، جب کہ یوٹیوب پر 2012 اور 2016 کے درمیان گستاخانہ مواد کی وجہ سے پابندی لگائی گئی۔