(ویب ڈیسک) شاہد خاقان عباسی نے کہا دنیا میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے جہاں 2 کروڑ 60 لاکھ بچے سکولز سے باہر ہیں ،اقتدار میں زیادہ وہ لوگ شامل ہیں جو الیکشن ہارے ہوئے ہیں ، فارم 47 والے ملک نہیں بناتے اور نہ وہ بنا سکتے ہیں ۔
تفصیلات کےمطابق شاہد خاقان عباسی نے’ عوام پاکستان پارٹی‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کے اندرمعاشی استحکام ہے اور نہ سیاسی استحکام،دنیا میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے جہاں 2 کروڑ 60 لاکھ بچے سکولز سے باہر ہیں،جس ملک میں دودھ پر ٹیکس لگایا گیا ہو تو آپ آئندہ برس کیا کریں گے ؟ وزیر خزانہ سمیت کسی کی بھی بھی تقریر سن لیں ملک کے مسائل کے حل کی بات نہیں کی ،تین بڑی جماعتیں اس وقت اقتدار میں ہیں کیا ان کو ملک کی فکر ہے؟
شاہد خاقان عباسی نے کہا ملک کو ان لوگوں کی ضرورت ہے جو کرسیاں تلاش نہ کرتے ہوں ،اقتدار میں زیادہ وہ لوگ شامل ہیں جو الیکشن ہارے ہوئے ہیں، ملک کے اندر ریڈی میٹ جماعتیں آتی ہیں، ’عوام پاکستان‘ ایک الگ جماعت ہے ، عوام پاکستان میں اچھی شہرت کے لوگوں کو دعوت دیں گے ،ہم اقتدار کی تلاش میں نہیں ہیں وہ دوسری جماعتوں کو مبارک ہو۔
’عوام پاکستان‘ میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو ملک کو کچھ دیں گے، آج منزل کی جانب سے پہلا مشکل قدم ہے، یہ اقتدار کا سفر نہیں ہے، فارم 47 والے ملک نہیں بناتے اور نہ وہ بنا سکتے ہیں,پاکستان ہماری پہنچان ہے اور یہ ہماری آئیڈیالوجی ہے،عوام کی خدمت ہماری ذمہ داری ہے, ملک کو آگے لے کر جانا ہے، آج کوشش نہ کی گئی تو کون کرے گا ؟24 کروڑ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کوئی جماعت اقتدار میں نہیں آ سکتی،ہم آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے ہیں، اس ملک کا وزیراعظم آرمی چیف کا تابع نہیں ہو سکتا ۔
جج اور بیوروکریٹ کسی اور کے تابع نہیں ملک کے آئین کے تابع ہیں ،یہ کسی کی خام خیالی ہے، ایک دفعہ ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہو گا ،24 کروڑ کا ملک یہ ممکن نہیں کہ آئین توڑتے رہیں اور یہ ملک چلتا رہے ،اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ آئینی عہدہ رکھنے والے آئین توڑتے ہیں ،غیر آئینی عمل نے ملک کے اندر کرپٹ ترین سیاست دان اس ملک کو دیئے ہیں، ملک میں وسائل کی بات سب کرتے ہیں مسائل کی بات کوئی نہیں کرتا ،ان لوگوں کا احتساب ہونا چاہئے جو ٹیکس کی بات کرتے ہیں اور خود نہیں دیتے ،کروڑوں کی آمدن رکھنے والے خود ٹیکس دینے سے انکار کرتے ہیں ۔
سابق وزیراعظم نے کہا ہماری سرحدوں سے ایرانی تیل، پٹرول اور سیکریٹ اور دیگر اربوں کا مال اسمگل ہو کر آتا ہے،ہم اس ملک کے مسائل کا حل بتائیں گے صرف باتیں نہیں کریں گے ،ہم بغیر پڑھے قانون ہو پاس کرتے ہیں،95 فیصد قانون حکومت کی سہولت کے لیے ہوتے ہیں، ملک کے اندر بجٹ پر بات کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں،5 ارب روپے اپنی ایم این اے کو دے دی لیکن سکولز کے باہر بچوں کو نہیں سوچا گیا ،افغانستان کی نسبت ہمارے ملک میں بچوں کے انتقال کی شرح زیادہ ہے ،موجودہ حکمرانوں کو حکمرانی کا شوق ہے، یہ فرسودہ نظام کو ختم کرنا ہو گا ۔
30 سال سے بیوروکریٹک ریفارمز کی بات ہو رہی ہے لیکن آج تک نہ ہو سکی،اختیارات اور طاقت کو نچلے طبقے میں لانا ہو گا، شہری کی عزت کرنا ہو گا ،جس ملک میں انٹرنیٹ بند کر دیا جائے تو معیشت کیسے چلے گی ،معیشت کو درست کرنا ہے تو لوگون سے ان سے استطاعت کے مطابق ٹیکس وصول کریں ، ملک کے اندر ٹیکنالوجی موجود ہے جو ٹیکس چوری کرنا والا پکڑا جا سکتا ہے،اشرافیہ نہیں چاہتی کہ یہ نظام چلے، یہ لمبی داستانیں ہیں ،حق کی بات کرنے والا اس ملک اور لوگوں کو حامی ہوتا ہے۔