پاکستانیوں میں پاسپورٹ بنوانے کا رجحان کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟

پاکستانیوں میں پاسپورٹ بنوانے کا رجحان کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟
لاہور: (ویب ڈیسک) ملک کے کسی بھی نادرا سینٹر پر چلے جائیں، وہاں آپ کو پاسپورٹ بنوانے والوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آئیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر کبھی بیرون ملک جاتے ہی نہیں بلکہ صرف پاسپورٹ بنوا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ آخر یہ رجحان کیوں بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر پاکستانیوں کی بڑی تعداد باہر جاتی نہیں، تو شہری آخر پاسپورٹ کیوں بنواتے ہیں؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ ملک کی معاشی حالت ہے۔ بیشتر پاکستانیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے باہر چلے جائیں تاکہ وہاں سے ڈالر اور پائونڈ کما نہ کر ناصرف اپنی بلکہ اپنے گھر والوں کی زندگیاں آسان کر سکیں لیکن بیرون ملک جانے کی خواہش ہر پاکستانی کی پوری نہیں ہوتی۔ ایک سروے کے مطابق پاکستانیوں میں پاسپورٹ بنوانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ پاسپورٹ بنوانے والوں کی بڑی تعداد کو نہ تو کسی ملک سے نوکری کی آفر ہوتی ہے اور نہ ہی انہوں نے وزٹ کیلئے کہیں جانا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنا پاسپورٹ بنوانا فرض سمجھتے ہیں۔ گذشتہ سال 2021ء میں جاری ہونے والے پاکستان کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد مشرقِ وسطیٰ میں ہے اور ان میں بھی بڑی تعداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے۔ 2017-18ء کے اعدادوشمار کے مطابق مشرق وسطیٰ میں تقریباً 48 لاکھ کے قریب پاکستانی رہ رہے ہیں، جبکہ یورپ میں 21 لاکھ سے زیادہ جبکہ شمالی امریکا میں یہ تعداد ساڑھے 13 لاکھ سے زیادہ ہے۔ 3 لاکھ کے قریب افریقہ، 2 لاکھ سے ذرا زیادہ ایشیا اور مشرقِ بعید اور 1 لاکھ سے کچھ اور اوپر آسٹریلیا میں رہتے ہیں۔ گذشتہ تین سالوں میں 10 لاکھ 26 ہزار چھ سو سے زائد افراد ملازمت کی غرض سے بیرون ملک جا چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ پانچ لاکھ 70 ہزار سعودی عرب گئے۔ ماضی میں وزیر اطلاعات فواد چودھری کی جانب سے فراہم کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے گذشتہ تین سالوں میں بیرون ملک ملازمت کے لئے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ساتھ رجسٹر ہونے والے پاکستانیوں میں سب سے زیادہ تعداد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جانے والوں کی تھی۔ فہرست کے مطابق 5 لاکھ 70 ہزار افراد سعودی عرب ملازمت کے لئے روانہ ہوئے۔ دو لاکھ 71 ہزار 700 پاکستانی یو اے ای جبکہ تیسرے نمبر پر عمان کے لئے 61 ہزار 400 پاکستانی روانہ ہوئے۔ https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1466301747849269251?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1466301747849269251%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.urdunews.com%2Fnode%2F623601 اپنی ایک ٹویٹ میں اعدادو شمار شیئر کرتے ہوئے فواد چودھری نے بتایا تھا کہ کورونا کے باوجود 3 سالوں میں گیارہ لاکھ پاکستانیوں کو صرف بیرون ممالک میں نوکری ملی ہے۔ اگلے 2 سالوں میں پوری امید ہے 20 لاکھ پاکستانی بیرون ملک جائیں گے۔ گذشتہ تین سالوں میں 53 ہزار 600 پاکستانی قطر جانے کے لئے رجسٹرڈ ہوئے جبکہ 25 ہزار بحرین، 13 ہزار ملائیشیا، 5 ہزار عراق، 2600 یونان اور 2400 انگلینڈ میں ملازمت کے لئے رجسٹرڈ ہوئے۔ فہرست میں چین کا دسواں نمبر ہے جہاں ملازمت کے لیے 1943 افراد رجسٹرڈ ہوئے، جبکہ پہلے سات خلیجی اور ایشائی ممالک ہیں جہاں جانے کے لیے پاکستانیوں نے رجسٹرڈ کیا۔ بیرون ملک کس ملک کے کتنے شہری آباد ہیں؟ اقوام متحدہ کے مطابق 2020ء تک مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 272 ملین ہو چکی ہے۔ بھارت اس فہرست میں بھارت کا پہلا نمبر ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے آغاز تک قریب ایک کروڑ 80 لاکھ بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ زیادہ تر بھارتی تارکین وطن امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ہیں۔ 2000ء میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد 8 ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔ میکسیکو جنوبی امریکی ملک میکسیکو، قریب ایک کروڑ بیس لاکھ (12 ملین) بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی 90 فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔ چین چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ دسمبر 2019ء تک ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چین تیسرے نمبر پر ہے۔ چینی تارکین وطن کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا میں آباد ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد 44 لاکھ تھی۔ روس چوتھے نمبر پر روس ہے جس کے ایک کروڑ سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ روسی تارکین وطن جرمنی، امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ سابق سوویت ریاستوں میں مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 2000ء میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔ شام خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے 80 لاکھ شہری دوسرے ممالک میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ملک شام 1990ء میں اس عالمی درجہ بندی میں 26ویں نمبر پر تھا تاہم 2011ء میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔ شامی مہاجرین کی اکثریت ترکی، اردن اور لبنان جیسے پڑوسی ملکوں میں ہے تاہم جرمنی سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں بھی شامی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ بنگلا دیش جنوبی ایشیائی ملک بنگلا دیش اقوام متحدہ کی تیار کردہ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق قریب 80 لاکھ بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ بنگالی شہری بھارت اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن امریکا، برطانیہ اور خلیجی ممالک کا رخ کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ پاکستان 70 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ زیادہ تر پاکستانی خلیجی ممالک، برطانیہ اور امریکا میں موجود ہیں۔ 1990ء میں 34 لاکھ جبکہ 2005ء کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم 2007ء کے بعد سے پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یوکرین سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 90ء کی دہائی میں یوکرین اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرینی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرین کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے آغاز تک چھ ملین یوکرائنی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ فلپائن 57 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ 2000ء میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائنی شہریوں کی تعداد 30 لاکھ تھی۔ گذشتہ 17 برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائنی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔ افغانستان افغانستان 50 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں دسویں نمبر پر ہے۔ 1990ء میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6 اعشاریہ 7 ملین شہری پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں مقیم تھے۔ تاہم 1995ء تک 22 لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔ بشکریہ ڈی ڈبلیو، اردو نیوز