صدارتی نظام کیا ہے؟ صدر کے پاس کیا طاقت ہوتی ہے؟

صدارتی نظام کیا ہے؟ صدر کے پاس کیا طاقت ہوتی ہے؟
صدارتی نظام کیا ہے؟ کیا یہ بھی ایک جمہوری نظام ہے؟ ؟ کیا صدارتی نظام ون مین شو ہوتا ہے، یعنی تمام پاورز صدر کے پاس ہوتی ہیں؟ ؟ کیا Presidential System میں صدر کو ہٹایا جاسکتا ہے؟ صدارتی نظام کی بنیادی طور پر کون سی دو اقسام ہیں؟ صدارتی نظام کے فائدے اور نقصان کیا کیا ہیں؟کیا صدارتی نظام میں پارلیمنٹ ہوتی ہے ؟ اگر ہاں تو کیا اس کے پاس پاورز بھی ہوتی ہیں یا یہ صرف شو شا ہی کے لیے ہوتی ہےان تمام سوالوں کے جواب اور صدارتی نظام کے متعلق اور بہت سی باتیں جانیں اس بلاگ میں۔ قارئین سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ صدارتی نظام بھی ایک جمہوری نظام ہی ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام ہونا چاہیئے یا نہیں، آج کل لوگ اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں مگر زیادہ تر کو یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ ہے کیا؟ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ صدارتی نظام Dictatorship یا آمریت کا نام ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اصل میں صدارتی نظام میں صدر حکومت ، Executive یعنی انتظامیہ کا ہیڈ ہوتا ہے اور اس کا تعلق پارلیمنٹ سے نہیں ہوتا۔ اسے نہ تو پارلیمنٹ منتخب کرتی ہے اور نہ ہی اس کو ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ میں Motion of No Confidence یعنی تحریکِ عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر Presidential System میں صدر پارلیمنٹ کو جوابدہ ہی نہیں ہوتا۔ مزے کی بات یہ کہ پارلیمنٹ صدر کو ہٹا ہی نہیں سکتی ۔ اس طرح صدر کی سیٹ بڑی پکی اور مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انتہائی Extraordinary Reasons یعنی غیر معمولی وجوہات کی وجہ سے پارلیمنٹ President کو Impeach کرکے یعنی مواخذے کے ذریعے ہٹا سکتی ہے۔ زیادہ تر کیسز میں تو صدر Chief Executive of The Country ہونے کے ساتھ ساتھ Head of The State یعنی ریاست کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ پارلیمانی سسٹم کی بات کریں تو اس میں تو یہ ہوتا ہے کہ پہلے ایک شخص ایم این اے بنتا ہے۔ پھر اسے نیشنل اسمبلی میں وزیرِاعظم کا الیکشن لڑنا پڑتا ہے اور جیت جائے تو وزیرِاعظم بن جاتا اور پھر پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ مگر صدارتی نظام میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ صدارتی نظام کی بنیادی طور پر دو Types ہیں۔ ایک میں کوئی شخص ڈائیریکٹ ووٹ لے کر President بن جاتا ہے۔ یعنی پاپولر ووٹ سے۔ جبکہ دوسرے میں صدر کو ڈائیریکٹ ووٹ نہیں پڑتے۔ اس کا ایک الیکٹورل کالج ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ہرصدارتی امیدوار کے یا اس کی پارٹی کے نمائندوں کو ووٹ پڑتے ہیں۔ جس کے زیادہ نمائندے جیت گئے وہ Candidate ،،،پریزیڈینٹ بن جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں الیکٹورل ووٹس سے صدر کا منتخب ہونا۔ اور یہ بھی ضروری نہیں جس شخص کو زیادہ پاپولر ووٹ ملیں وہی صدر بنے بلکہ صدر بننے کے لیے زیادہ الیکٹورل ووٹس لینے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا کے پچھلے الیکشن میں زیادہ پاپولر ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو ملے مگر ان کو ملنے والے الیکٹورل ووٹس کی تعداد جو بائیڈن سے کم تھی اس لیے جو بائیڈن امریکا کے صدر منتخب ہوگئے۔ یہ تو تھے Presidential System میں صدر کے الیکٹ ہونے کے 2 بنیادی طریقے ۔ اور اب بات Presidential System کے فائدوں کی۔ اس نظام میں صدر کے پاس بھرپور اختیارات ہوتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ بہت زیادہ پاورز ہونے کی وجہ سے صدر کی مجبوریاں نہیں ہوتیں۔ وہ بہترین گورننس کرسکتا ہے۔ اس کی کرسی خطرے میں نہیں ہوتی، اس لیے کوئی اسے بیلک میل نہیں کرسکتا۔ البتہ پریذیڈنسی اور پارلیمنٹ ایک دوسرے پر چیک رکھ سکتی ہیں جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ اس سے طاقت کا غلط استعمال نہیں ہوتا۔ صدر کے سر پر ہٹائے جانے کی تلوار نہیں لٹک رہی ہوتی۔ اس لیے وہ زیادہ بہتر پرفارم کرسکتا ہے۔ اس نظام میں صدر کو اپنے وزیر اور حکومت کے دیگر لوگ Appoint کرنے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کے باہر سے بھی وزیر لے سکتا اور جب چاہے انہیں ہٹا بھی سکتا ہے۔ اس لیے وزیر ہمیشہ اپنی حد میں رہتے ہیں اور صدر کے خلاف سازشیں نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ اس نظام میں صدر کی پارٹی اسے کسی کام کے لیے مجبور نہیں کرسکتی۔ صدر کا تمام تر فوکس حکومت چلانے اور گڈ گورننس پر ہوتا ہے۔ وہ جلد فیصلے کرسکتا ہے۔اسے حکومت کے ساتھ ساتھ پارٹی نہیں چلانا پڑتی۔ صدر نہایت آرام سے اور بغیر کسی ٹینشن کے اپنی مدت پوری کرتا ہے۔ اور اب کچھ بات ہوجائے صدارتی نظام کے نقصانات کی۔ Presidential System میں صدر جمہوری ڈکٹیٹر بن جاتا ہے۔ حد سے زیادہ طاقت ا س کا دماغ خراب کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نظام Flexible یعنی لچکدار بھی نہیں ہوتا۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ، عالمی جنگ چِھڑ جائے اس میں حکومت کی مدت نہیں بڑھ سکتی اور ہر صورت الیکشن اپنے وقت پر ہوتاہے۔ مثال کے طور پر ورلڈ وار 2 کے دوران امریکا میں 2 بار الیکشن ہوئے جبکہ برطانیہ میں حکومت کی مدت بڑھا دی گئی تھی کیونکہ وہاں پارلیمانی نظام تھا۔ اس کے علاوہ صدارتی نظام ا یک مہنگا نظام ہے۔ Presidential Form of Government چلانے کے لیے خوب خرچا کرنا پڑتا ہے ۔صدر مختلف بہانوں سے خوب خرچ کرسکتا ہے۔ اس طرح کرپشن کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں۔ جبکہ پارلیمانی نظام اس سے بہت سستا ہے۔ اور اگر پارلیمنٹ اور صدر کے تعلقات ٹھیک نہ ہوں تو پھر منصوبے Delay ہوسکتے ہیں۔اور اس لڑائی کا نقصان ملک کو ہوتا ہے۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔