آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کالعدم قرار

آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کالعدم قرار
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کالعدم قرار دے دی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت 7 رکنی لاجر بینچ نے تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت کی۔ لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔ سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے تاحیات نا اہلی ختم کر دی ۔عدالت سے فیصلہ 6/1 کی اکثریت سے آیا۔بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا. سپریم کورٹ نے فیصلے میں‌کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتا ،عدالت نے سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم کردیا. سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل واپس لینے پر خارج کردی گئی. جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں‌لکھا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ برقرار رہنا چاہیے ، سمیع اللہ بلوچ کیس کا تاحیات نااہلی کا فیصلہ قانونی ہے، نااہلی تب تک برقرار رہے ہے گی جب ڈکلیئریشن موجود رہے گی. اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا لیکن کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، کاغذات نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہل کر دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک جنرل نے 62 ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ کیا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کا ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں انتخابات سے پہلے اتنا سخت ٹیسٹ ہوتا ہے؟ ۔ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کسی اور ملک میں سیاستدانوں کیلئے ایسا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا، اس پر چیف بولے کہ کیا ہمارے سیاستدان پوری دنیا کے سیاستدانوں سے الگ ہیں؟ کاغذات نامزدگی میں ذاتی معلومات دیں اور انتخابات کیلئے اہل ہو جائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں پوچھا جاتا ہے آپ کے پاس کتنا سونا ہے؟ اگر سونا رکھنے سے متعلق درست نہ بتایا جائے تو تاحیات نااہل کر دیتے ہیں، تاحیات نااہلی کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ فراڈ پر ایک شخص کو سزا ہو جائے توکیا سزاکے بعد انتخابات لڑ سکتا ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ دھوکہ دہی میں سزا پوری ہونے کے بعد انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون صادق اور امین ہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا لارجربینچ بنایا تاکہ سوالات کا جواب ہو لیکن معاملہ الجھتا جا رہا ہے، انتظارکرلیتے ہیں،کیا پتا سوالات کے جوابات اس سے بڑے بینچ سے آجائیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا ایک شخص کی غلطی سے پورا حلقہ متاثر کیا جا سکتا ہے؟ مخصوص کیس کے باعث حلقے کے لوگ اپنے نمائندے سے محروم کیوں ہوں، کیسے ممکن ہے ایک شخص پر مخصوص مقدمہ بنے اورپورا حلقہ اس کے نتائج بھگتے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا عدالت الیکشن ایکٹ سیکشن 232 کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سیکشن 232 عدالت کے سامنے چیلنج نہیں ہوا، اس کوکالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، الیکشن ایکٹ ترمیم پر فیصلے کیلئے اس کےخلاف درخواست آنا ضروری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ عدالت نے اپنا ہی فیصلہ دیکھنا ہےتوکیا 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہونی چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کہا گیا کہ عام قانون سازی آئینی ترمیم کا راستہ کھول سکتی ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جو فیصلہ چاہیں کردیں؟ کیا ہمارے پارلیمان میں بیٹھے لوگ بہت زیادہ سمجھدار ہیں؟. جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کوئی کاغذات میں جھوٹ بولےتوکیا آراو مواد دیکھ کر ڈکلیئریشن دے سکتا ہے؟ اس پر مخدول علی خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بالکل نہیں، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لاء نہیں جو ڈکلیئریشن جاری کرے، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کیا ہائیکورٹ ڈکلیئریشن جاری کر سکتی ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا میں سمجھتا ہوں آرٹیکل199 کے تحت ہائیکورٹ ڈکلیئریشن دے سکتی ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے، سیکشن 232 کو چیلنج ہی نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ میں توبہ کے نظریہ کی بات ہوئی، عدالت کو سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کے فیصلے کوختم کرنا ہوگا، سمیع اللہ بلوچ فیصلے کوختم کریں کیونکہ اس کیس میں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا اس سوال کا جواب ہم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر فیصلے میں دے چکے، قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے وکیل مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ آپ آج ہی اپنی تحریری معروضات جمع کرا دیں، پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سے خوش ہے، کسی نے 5 سال نااہلی کا قانون چیلنج ہی نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان کے دلائل: دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان نے اپنے دلائل میں 2015 کے اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں اسحاق خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی عجیب بات ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس ڈسکس نہیں ہوا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا اصل میں خاکوانی کیس کیا تھا؟،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خاکوانی کیس نااہلی سے ہی متعلق تھا، کورٹ آف لاء کیا ہوگی2015 میں 7 رکنی بینچ نے یہ معاملہ اٹھایا، سمیع اللہ بلوچ کیس نے کورٹ آف لاء کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا سمیع اللہ بلوچ کیس میں کیا اسحاق خاکوانی کیس کا حوالہ موجود ہے؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں خاکوانی کیس کو ڈسکس نہیں کیا گیا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا تھا یہ معاملہ متعلقہ کیس میں دیکھیں گے، اس کے بعد یہ معاملہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔ چیف جسٹس سے استفسار کیا کہ کسی نے یہ نہیں کہا یہ معاملہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیار میں ہے؟ اسلامی معاملات پر دائرہ اختیار تو شریعت کورٹ کا ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ درست نہیں، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں آئین کی تشریح غلط کی ہے، سپریم کورٹ تعین کرےکہ سیاستدانوں کی اہلیت کی ڈکلیئریشن کس نےدینی ہے۔ جسٹس امین نے پوچھا کیا آپ چاہتے ہیں اسحاق خاکوانی کیس میں اٹھائے گئے سوالات کا فیصلہ ہم کریں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو مختلف آئینی سوالات کا تعین کرنا ہوگا، عدالت فیصلہ کرے کہ نااہلی کی ڈکلیئریشن کس نے دینی ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ کورٹ آف لاء کیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے درخواست گزار، اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کے دلائل سننے کے بعد تاحیات نااہلی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔