لاہور ( پبلک نیوز) لاہور ہائیکورٹ کے نظر ثانی بورڈ نے سعد رضوی کی رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اگر سعد رضوی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔ جسٹس ملک شہزاد کی سربراہی میں تین رکنی بورڈ نے فیصلہ جاری کیا۔ حکومتی وکیل کے مطابق حافظ سعد رضوی عوام الناس کو ہراساں کرنے اور حکومت کے خلاف اقدمات میں ملوث ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ حکومتی وکیل کے مطابق امن عامہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس برانچ کی ہدایت پر سعد رضوی کو نظر بند کیا گیا۔ سعد رضوی کو جس تاریخ کو حراست میں لیا گیا اس سے پہلے نہ کوئی پولیس اہلکار شہید ہوا نہ زخمی ہوا۔ سعد رضوی حراست کے دوران اپنے کارکنان سے رابطے میں نہیں تھے۔ سعد رضوی کو حراست میں لینے سے قبل حالات خراب نہیں تھے۔ حکومت نے حالات خراب ہونے کی ایک سائیڈ کی تصویر پیش کی ہے جس سے حکومت کی بدنیتی عیاں ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور حکومتی جماعت پی ٹی آئی نے بھی دھرنے دیے لیکن نہ انہیں بین کیا گیا نہ ہی انکے سربراہان کو نظر بند کیا گیا۔ ماضی میں پی ٹی آئی کے سربراہ اور ممبران نے ایک سو بیس دن دھرنا دیا کیا ان کی نظر بندی ہوئی لیکن حکومت کے وکیل نظر بندی کے حوالے سے کوئی دستاویز پیش نہ کر سکے۔ نظر ثانی بورڈ سمجھنے سے قاصر ہے کہ تحریک لبیک کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔ حکومتی وکیل کے مطابق سعد رضوی نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا حکومت کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ کئی ممبران اسمبلی نے بھی یہی مطالبہ کیا لیکن انکے خلاف تو کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ حافظ سعد رضوی دو ماہ بیس دن سے نظر بند ہیں انکے خلاف نو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ مقدمات میں گرفتاری نہ ڈالنا پولیس کی بدنیتی کو ثابت کرتا ہے۔ حکومت صرف خدشات کی بنیاد پر نظر بندی میں توسیع چاہتی ہے، اس مقصد کے لیے مواد فراہم نہیں کیا گیا۔ نظر ثانی بورڈ نے فیصلہ میں لکھا کہ حکومتی استدعا مسترد کی جاتی ہے اگر سعد رضوی کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔