جسٹس اعجاز الاحسن نے بینچز کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کردیا

جسٹس اعجاز الاحسن نے بینچز کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کردیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اعجاز الاحسن نے بینچز کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔ بینچز کی تشکیل پر جسٹس اعجاز الاحسن نے تین رکنی کمیٹی کی سیکرٹری رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا، خط میں جسٹس اعجاز الاحسن کی جانب سے بینچز کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ججز کمیٹی میں طے ہوا تھا کہ ملٹری کورٹس فیصلے کی اپیل سات ججز سنیں گے، پک اینڈ چوز کے تاثر کو ختم کرنے کے لیے یہ کہا گیا تھا کہ بنچ میں سینئر ترین سات ججز کو شامل کیا جائے۔ خط میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت جسٹس اعجازالاحسن مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے والی کمیٹی کا حصہ ہیں، 7 دسمبر کو چیف جسٹس کے چیمبر میں تین رکنی کمیٹی کا اجلاس ہوا، 4 بجے کمیٹی اجلاس تھا بار بار کالز کے بعد ڈیڑھ گھنٹہ قبل اجلاس کا ایجنڈا موصول ہوا، میں نے بطور ممبر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے خط میں کہا کہ کمیٹی کے ایجنڈا کے تین نکات تھے، فہرست میں شامل مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنا، فہرست میں شامل ائینی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق کمیٹی کا حکم نامہ، مقدمات جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق پالیسی کا تعین کرنا۔ خط میں کہا گیا کہ ایجنڈا آئٹم 1 کے تحت کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل پر پانچ رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے، کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے فیصلے کے خلاف اپیلیں سات رکنی بینچ سنے گا، میں نے اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ پک اینڈ چوز کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کیس سننے والے ججز کا بنچ بھی سنیارٹی پر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے خط میں لکھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے کیس کی کاز لسٹ جاری ہوئی تو معاملہ الٹ نکلا، تین رکنی ججز کمیٹی کے چوتھے اور پانچویں اجلاس کے منٹس آف میٹنگ مجھے دکھائے اور سائن کروائے بغیر جاری کئے گئے۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔