شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف نظرثانی اپیل مسترد

شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف نظرثانی اپیل مسترد
عدالت نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف نظرثانی اپیل مسترد کر دی، عدالت کا کہنا تھا کہ شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرنے کا حکم درست ہے، سیشن کورٹ نے پولیس کی نظر ثانی اپیل ناقابل سماعت قرار دے دی. عدالت نے شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا فیصلہ درست قرار دیدیا. اس سے قبل اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے پولیس کی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیدیا ہے۔ تفصیل کے مطابق پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو ضلعی کچہری اسلام آباد میں پیشی ہوئی تو پولیس کی جانب سے ایک بار پھر صحافیوں کو کمرہ عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ حکام کی اجازت کے بغیر ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ اس پر صحافیوں کا کہنا تھا کہ ہمیں وہ آرڈر دکھائیں جس میں عدالت جانے سے صحافیوں کو روکا گیا ہے۔ پولیس نے تکرار کی کہ آپ وہ آرڈر دکھائیں جس میں جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ صحافیوں کا پولیس کے رویے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب تک کوئی آرڈر نہ ہو کھلی عدالت میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ شہباز گل نے کمرہ عدالت پہنچتے ہی تحریک اںصاف کے رہنما علی نواز اعوان کے کان میں سرگوشی کی۔ اس پر فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے رہنماؤں کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی اپیل کی اور کہا کہ جج صاحب آگئے ہیں کمرہ عدالت میں خاموشی اختیار کریں۔ شہباز گل کو معزز سول جج عمر شبیر کی عدالت میں دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد پیش کیا گیا تو انہوں نے استفسار کیا کہ پولیس کی جانب سے میڈیا کو کیوں روکا گیا؟ اس پر صدر ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے ان کو بتایا کہ آج بھی جج صاحب پیغام بتایا گیا تب آنے دیا گیا۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پولیس نے شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے تفتیشی افسر نے کہا کہ آڈیو پروگرام کی سی ڈی میچ کر گئی ہے۔ ایک موبائل ان کی گاڑی میں رہ گیا تھا، دوسرا ان کے پاس تھا۔ اس کی برآمدگی ضروری ہے۔ اس پر شہباز گل کا کہنا تھا کہ چار بجے کا وقت تھا، اس وقت کوئی موبائل نہیں چل رہا تھا، 10 محرم الحرام کی وجہ سے سگنل نہیں تھے۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ مجھ پر تشدد کیا گیا، میرے جسم پر اس کے نشانات موجود ہیں۔ فزیکل چیک اپ نہیں کیا گیا وکلا سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ ساری ساری رات مجھے جگایا جاتا ہے۔ مجھے بار بار سونے نہیں دیا جاتا۔ شہباز گل نے عدالت کو کپڑا اٹھا کر کمر دکھائی اور کہا کہ میڈیکل ہوا نہیں خود ہی کر لیا گیا۔ اپنی افواج کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسی بات کروں۔ میں پروفیسر ہوں کریمنل نہیں ہوں۔ اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ مطلب فرضی رپورٹ بنا لی ہے۔ شہباز گل کا کہنا تھا کہ مجھ سے پوچھا جاتا ہے سابق وزیراعظم عمران خان کھاتے کیا ہیں؟ میں وفاقی کابینہ کا ممبر رہا ہوں لیکن میرے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کے روبرو بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرانسکرپٹ تھا جو پڑھا گیا یہ نہیں بتا رہے کون اس کے پیچھے ہے۔ پولی گرافک ٹیسٹ کرانا ہے جس سے سچ اور جھوٹ کا پتہ چل جائے گا۔ ہمیں شہباز گل کے موبائل اور لیٹ ٹاپ تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ ڈرائیور کو انہوں نے بنی گالہ چھپایا ہوا ہے۔ میری عدالت سے استدعا ہے کہ ملزم کا مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ پراسیکوٹر کا کہنا تھا کہ فوج کے اندر مختلف رینکس کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی گئی۔ تفتیش کا مقصد یہ ہے کہ ہم شواہد اکٹھے کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے ریمانڈ میں ہم کہہ رہے تھے اس کا ٹرانسکرپٹ اصلی ہے یا نہیں۔ ہم نے ابھی دیکھنا ہے کہ پروگرام کے پیچھے پروڈیوسر کون تھا۔ میری استدعا ہے ملزم ہائی پروفائل ہے، ہم نے پولی گرافک ٹیسٹ کرانا ہے۔ ہمیں چار پانچ دن دیں تاکہ پنجاب فرانزک لیب سے پولی گرافک ٹیسٹ کرائیں۔ ہم نے پیمرا کو بھی لکھا ہے، ہو سکتا ہے ملزم کو کراچی لے جانا پڑے۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ دوسرا موبائل بھی ان کے پاس ہے؟ اس پر تفتیشی نے کہا کہ ہمارے ذرائع نے یہ بات بتائی ہے۔ تاہم شہباز گل نے دعویٰ کیا کہ میری تو لینڈ لائن پر بات ہوئی تھی۔ ایڈووکیٹ فیصل چودھری کا کہنا تھا کہ یہ موبائل لینا چاہتے ہیں جس میں سب سیاسی ایکٹیوٹی ہے۔ جو رٹی رٹائی تقریر انہوں نے کی اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ پولی گرافک ٹیسٹ کے لیے فزیکل ریمانڈ کی ضرورت ہی نہیں وہ ویسے بھی کرا سکتے ہیں۔ وکیل علی بخاری کا کہنا تھا کہ ایک کیس میں دو مقدمے نہیں ہو سکتے۔ کراچی کے مقدمے میں ملزم کو اسی روز عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا۔ ایک ہی قسم کے الزامات ایک ہی قسم کے ملزم، کراچی کی عدالت نے ملزم رہا کر دیا۔ کمپلینٹ کا بیان انہوں نے لیا ہے، کوئی تائیدی بیان انہوں نے لیا؟ اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا ایک ہی معاملے میں مختلف مقدمات کی نظیر پیش کی گئی۔ وکیل علی بخاری نے بتایا کہ ابھی بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس زیر التوا ہے۔ یہ بنانا اسٹیٹ نہیں ہے ہر ملزم کے رائٹس ہیں۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔