لاہور(پبلک نیوز) پنجاب میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافے کا اعلان، مزدور کی کم سے کم اجرت20ہزار روپے ہو گی۔ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 560ارب روپے مختص. وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت نے مالی سال 2021-22 کے بجٹ کی منظوری کے لیے پنجاب اسمبلی سے خطاب کیا، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کے پہلے سیشن میں پہلی تقریرباعث اعزاز ہے۔
پنجاب اسمبلی کی عمارت کے16سال سے زیر التواء منصوبے کی تکمیل کا سہرا موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی کے سر ہے۔ پنجاب حکومت وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان احمد خان بزدار کی رہنمائی میں معاشی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہے۔ پنجاب حکومت کا نئے مالی سال کا بجٹ حقیقی معنوں میں تحریک انصاف کے منشور کے مطابق اور عوامی امنگوں کا ترجمان ہے۔
اپنی تقریر میں پنجاب کے صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معزز ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آج سے تین سال قبل جب ہم نے صوبے کی باگ ڈور سنبھالی ملک تاریخ کے بد ترین مالیبحران سے دوچار تھا، مالی خسارے،گردشی قرضے اورمعاشی اشارئیے سب سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں کی تصدیق کر رہے تھے، پنجاب سپیڈ کی قیادت میں بہترین کارکردگی کادعویدار صوبہ 56ارب روپے کے واجب الاداء چیکس کا قرض دار تھا۔ 41ارب روپے کے اوور ڈرافٹس اور8,000سے زائد نامکمل سکیمیں نئی حکومت کی منتظر تھیں۔ وسائل کا بیشتر حصہ نمائشی منصوبوں کی نذر ہو چکا تھا۔
وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا صحت، تعلیم اورزراعت جیسے اہم شعبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا، ہمیں سوشل سیکٹر کی بحالی،معاشی ترقی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا تھا، ہمارے پاس دو ہی راستے تھے پہلا سیاسی سرمائے کی قربانی کا تھا اور دوسرا عوامی سرمائے کی، مجھے فخر ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے پہلے راستے کا انتخاب کیا ،ہم نے ناقص منصوبوں کو ختم کر کے وسائل کے مؤثر استعمال پر توجہ دی،ہم نے نئی سکیموں کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے جاری اخراجات پر کنٹرول اور وسائل میں اضافے کی تدبیر کی، اس سے قبل کہ یہ اصلاحات معاشی ترقی کی راہ ہموار کرتیں ہمیں کوویڈ نے آ لیا، تحریک انصاف کی حکومت نے اس وباء کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا، پاکستان کی حکمت عملی پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی، ہم نے اپنی شرح اموات پر کنٹرول اور معاشی استحکام کو یقینی بنایا، پنجاب واحد صوبہ تھا جس نے ان مشکل حالات میں 106ارب روپے کا کوویڈ ریلیف پیکج دیا۔ 56ارب روپے کا تاریخی ٹیکس ریلیف دیا، حکومت کی جانب سے عوام پر کی گئی یہ سرمایہ کاری رائیگاں نہیں گئی، امدادی پیکج سے مستفید ہونے والے لاکھوں خاندانوں کی دعاؤں سے آج معاشی ترقی کے تمام اشاریوں میں بہتری آئی، پاکستان اکنامک سروے کی رپورٹ کے مطابق شرح نمو میں اضافے کا تخمینہ IMF اور ورلڈ بینک کے تخمینے سے زیادہ ہے، رواں مالی سال کے اختتام پرترسیلات زر 29 ارب ڈالر اور برآمدات 25ارب ڈالر کو پہنچ چکی ہوں گی، پاکستان کی سٹاک مارکیٹ اس وقت کاروبار کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، ملک میں پائیدار معاشی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔کوویڈ کے دوران مشکل معاشی حالات کے باوجود صوبائی محصولات کی مد میں مثالی بہتری آئی ہے۔روا ں مالی سال میں صوبائی محصولات کا ہدف 317ارب روپے تھا ہم مالی سال کے اختتام تک 359ارب روپے اکٹھے کر لیں گے جو پچھلے سال سے 13.1%زیادہ ہیں، 25 سے زائد سروسز پر سکیڑز میں ٹیکس کی شرح میں کمی کے باوجودپنجاب ریونیو اتھارٹی نے اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جو پچھلے سال کی نسبت 42%زیادہ ہو گا۔
وزیر خزانہ پنجاب نے مزید کہامالی سال2021-22 کے بجٹ کا مجموعی حجم 2,653ارب روپے تجویز کیا جا رہا ہے جو رواں مالی سال سے 18فیصد زیادہ ہے۔ آئندہ مالی سال میں وفاقی محصولات کی وصولی کا ہدف5,829ارب روپے ہے۔این ایف سی ایوارڈ کے تحت پنجاب کو1,684ارب روپے منتقل کیے جائیں گے جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 18%زیادہ ہوں گے۔صوبائی محصولات کے لیے405ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 28% زیادہ ہے۔ بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ1,428ارب روپے لگایا گیا ہے۔ خوشی محسوس ہے کہ آئندہ مالی سال کے لئے ایک تاریخ ساز ترقیاتی پروگرام کا اعلان کر رہا ہوں۔صوبہ پنجاب کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 560 ارب روپے کے ریکارڈ فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں۔
وزیرخزانہ نے کہا ترقیاتی بجٹ میں ایک سال میں 66%کا غیر معمولی اضافہ ہماری ترقیاتی ترجیحات کا آئینہ دار ہے۔ترقیاتی پروگرام کے ثمرات پنجاب کے کونے کونے تک پہنچیں گےآئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں سوشل سیکٹر یعنی تعلیم اور صحت کے لیے205ارب 50کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 110%زیادہ ہیں۔ انفراسٹر کچر ڈویلپمنٹ کے لیے 145ارب40کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 87%زیادہ ہیں۔اسپیشل پروگرامزکے لیے 91ارب 41کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 92%زیادہ ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں اکنامک گروتھ کے لیے پیداوری شعبوں جن میں صنعت، زراعت، لائیوسٹاک،ٹوورازم،جنگلات وغیرہ شامل ہیں 57ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 234%زیادہ ہیں۔
صحت کا شعبہ
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ2021-22میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تیاری سماجی شعبہ میں بہتری،معاشی ترقی اور علاقائی مساوات کے تناظر میں کی گئی ہے۔ ترقیاتی پروگرام کے نمایاں منصوبہ جات میں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام، یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام،سڑکوں کی بحالی،مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ کیئر ہسپتالوں کا قیام،سکولوں کی اپ گریڈیشن،معاشی ترقی کے خصوصی مراعات، ورک فورس کی تیاری، انوائرمنٹ اینڈ گرین پاکستان اور پبلک ہاؤسنگ سکیم شامل ہیںآئندہ مالی سال میں صحت کے شعبہ کیلئے مجبوعی طورپر370ارب روپے کے فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں۔صحت کے ترقیاتی پروگرام کا مجموعی بجٹ 96ارب روپے ہے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں 182%زائد ہے۔اہم ترین منصوبہ 80 ارب روپے کی لاگت سے شروع ہونے والا یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام ہے۔ یونیورسل ہیلتھ پروگرام کے تحت رواں مالی سال میں پنجاب کی 100%آبادی کومفت اور معیاری علاج کی سہولت دستیاب ہو گی اِس پروگرام کے ذریعے 31دسمبر 2021تک پنجاب کی11کروڑ آبادی کی ہیلتھ انشورنس کی جائے گی۔ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر کے شعبے کے لئے اگلے مالی سال میں 78 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا جا رہا ہے۔ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے آئندہ ترقیاتی پروگرام میں چلڈرن ہسپتال لاہور میں پیڈز برن سینٹر، ایک ہزار بستروں پر مشتمل جنرل ہسپتا ل لاہو، 200بستروں پر مشتمل مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال ملتان کا قیام اورنشتر ہسپتال ملتان میں سٹی سکین مشین کی فراہمی شامل ہیں۔ راجن پور، لیہ، اٹک، بہاولنگر اور سیالکوٹ میں 24ارب روپے کی لاگت سے جدید ترین مدر اینڈ چائلڈہسپتال قائم کی جائیں گے۔محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 19ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔ آئندہ سال پنجاب کے 119 ٹی ایچ کیو ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن اور ری ویمپنگ لئے 6ارب روپے کا ایک جامع پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔چنیوٹ، حافظ آباد اور چکو ال میں 16ارب 60کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ترین ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ Preventive Healthcare Programme کے تحت ٹی بی، ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض پر قابو پانے کے لیے 11 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر صوبے میں 36 BHUs کواَپ گریڈ کر کے RHCs بنا دیا جائے گا۔ پنجاب کی 100%آبادی میں کرونا کی ویکسینیشن کے لئے 10ارب روپے کا خصوصی بلاک رکھے جانے کی تجویز ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے لئے 35 ارب 25کروڑ روپے کی خطیر رقم مہیا کی جا رہی ہے۔ پنجاب کے 14 شہروں میں 3ارب 50کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ٹراما سنٹرز قائم کئے جا رہے ہیں۔
تعلیم کا شعبہ
وزیر خزانہ پنجاب کا کہنا تھا کہ آئندہ سال تعلیم کا مجموعی بجٹ442ارب روپے رکھا گیا ہے جوموجودہ سال سے13%زیادہ ہے۔ترقیاتی اخراجات کے لیے54ارب 22کروڑ روپے جبکہ جاری اخراجات کے لیے388ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پنجاب کے 25%پرائمری سکول یعنی 8ہزار 360پرائمری سکولوں کو ایلیمنٹری سکول کا درجہ دیا جا رہا ہے۔اپ گریڈ تقریباََ40%سکول جنوبی پنجاب میں ہیسکول کی اپ گریڈیشن کی مد میں آئندہ سال کے بجٹ میں 6ارب 50کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور PEIMA کے تحت سکولوں میں 33لاکھ بچے حکومت کی امداد سے تعلیم حاصل کریں گے جس کے لئے23ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ہائر ایجوکیشن کی اہمیت کے پیش نظر بجٹ میں 15ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں جو کہ پچھلے سال کی نسبت285%زیادہ ہیں۔اعلی تعلیم تک رسائی کو بڑھانے کے لئے ہر ضلع میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لا یا جا رہا ہے۔ اب تک6نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔پنجاب کے 8 اضلاع اٹک، گوجرانوالہ، راجن پور، پاکپتن، حافظ آباد، بھکر، لیہ اور سیالکوٹ میں یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری دے دی گئی ہے۔مالی سال 2021-22 میں 7نئی یونیورسٹیاں قائم کرنے کی تجویز ہے جو کہ بہا ولنگر، ٹوبہ ٹیک سنگھ، مظفر گڑھ، ڈی جی خان، قصور اور شیخوپورہ میں قائم کی جائیں گی۔ سیالکوٹ میں 17ارب روپے کی مجموعی لاگت سے بین الاقوامی معیار کی انجینئرنگ یونیورسٹی قائم کی گی۔ بجٹ میں 86نئے کالجز قائم کرنے کی تجویز ہے۔ بجٹ میں کالجز میں تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لئے کالج اساتذہ کی تربیت کا ایک جامع پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ بجٹ میں رحمتہ للعالمینﷺ سکالر شپس کے لیے83 کروڑ 40 لاکھ روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں جن سے 15ہزارطلبا و طالبات مستفید ہو سکیں گے۔ تعلیم کے میدان میں لیے جانے والے اقدامات پنجاب میں نالج اکانومی کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے۔
جنوبی پنجاب کا ترقیاتی پروگرام
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ایک مدت تک وسائل کی غیر متوازن تقسیم کے پیدادہ کردہ مسائل سے دو چار رہا۔ نظر انداز کیے جانے والے اضلاع شکوک اور تعصبات کا شکار تھے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے جنوبی اورباقی پنجاب کے مابین واضح لکیر کھینچ دی تھی۔تحریک انصاف کی حکومت اپنے وعدے خطے کی محرومیوں کر رہی ہے۔پنجاب کے مالی سال 2021-22کا یہ بجٹ آج ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔آج اس مقدس ایوان میں جنوبی پنجاب کیساتھ برسوں سے کی جانے والی نمبروں کی ہیرا پھیری کو ہمیشہ کے لئے دفن کیا جا رہا ہے۔صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کا ترقیاتی پروگرام الگ شائع کیا گیا ہے جوحقیقی معنوں میں جنوبی پنجاب کے حقوق کے تحفظ کی ضامن ہو گا۔وزیرخزانہآئندہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے189ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں جو کہ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 34%ہے۔ ملتان اور بہاولپور میں سول سیکرٹریٹ قائم کر دئے گئے ہیں جن کی مستقل عمارتوں کی تعمیر کے لیے فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام
”سارا پنجاب، ہمارا پنجاب“ کے نظریے کے تحت صوبے کے تمام اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کو پوری کی جا رہی ہیں۔آئندہ مالی سال میں 360ارب روپے کی لاگت سے ایک عہد ساز ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ پروگرام کے تحت سڑکوں کی تعمیر و مرمت، فراہمی و نکاسیِ آب، بنیادی تعلیم و صحت سے متعلقہ ترقیاتی کام کیے جائیں گے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 99ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2021-22کے بجٹ میں لاہور کی مرکزی اور تجارتی اہمیت کے پیش نظر ترقیاتی منصوبوں کے لئے28ارب30کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے۔ لاہور میں اس وقت زیر تعمیر اہم منصوبوں میں شاہ کام چوک، گلاب دیوی ہسپتال انڈرپاس اور شیراں والاگیٹ اوورہیڈ شامل ہیں۔لاہور شہر میں پانی کی شدید قلت کو مدنظر رکھتے ہوئےSurface Water Treatment Plant لگایا جا رہا ہے جس کے لیے آئندہ مالی سال میں ایک ارب 50کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔پنجاب حکومت لاہور شہر میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل جدید ترین ہسپتال کی تعمیر کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔لاہورمیں راوی اربن پروجیکٹ اور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ جیسے فقیدالمثال منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔ معاشی ترقی کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں 10ارب روپے کا Programme for Economic Stimulus & Growth متعارف کروایا جا رہا ہے۔
ٹیکیسز میں ریلیف
بجٹ میں 50ارب روپے سے زائد کا ٹیکس ریلیف دیا جا رہا ہے۔ بورڈ آف ریوینو کی جانب سے ٹیکسوں کی مد میں اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح کو1% پر برقرار رکھا جائے گا۔40 ارب روپے کی اس رعایت کا مقصد کنسٹرکشن کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گا۔ رواں مالی سال میں جن 25 سے زائد سروسز پر پنجاب سیلز ٹیکس کی شرح کو16% سے 5%کیا گیا تھا جو آئندہ مالی سال میں بھی برقرار رکھا جائے گا۔ ریلیف حاصل کرنے والی سروسز میں اِن سروسز میں چھوٹے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز، شادی ہال، لانز، پنڈال اور شامیانہ سروسز و کیڑرز، آئی ٹی سروسز، ٹور آپریڑرز، جمز، پراپرٹی ڈیلرز، رینٹ اے کار سروس، کیبل ٹی وی آپریڑز، Treatment of Textile and Leather، زرعی اجناس سے متعلقہ کمیشن ایجنٹس، Auditing, Accounting & Tax Consultancy Services، فوٹو گرافی اور پارکنگ سروسزوغیرہ شامل ہیں۔ آئندہ مالی سال میں دس مزید سروسز پر سیلز ٹیکس کو16%سے کم کرکے 5%کرنے کی تجاویز بھی پیش کی جارہی ہیں۔نئی سروسز میں بیوٹی پارلرز، فیشن ڈیزائنزز، ہوم شیفس، آرکیٹیکٹ، لانڈریز اور ڈرائی کلینرز، سپلا ئی آف مشینری، وئیر ہاوس، ڈریس ڈیزائنرز اور رینٹل بلڈوزر وغیرہ شامل ہیں۔ کال سینٹرز پر ٹیکس کی شرح کو ساڑھے 19%سے کم کر کے 16%کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ رواں مالی سال میں ریسٹورانٹس کے لئے کیش ادائیگی پر ٹیکس کی شرح 16% جبکہ بذریعہ کریڈ ٹ یا ڈیبٹ کارڈ ادائیگی پر5% کیا گیا تھا۔ اگلے مالی سال کے لئےMobile Walletاور QRکوڈ کے ذریعے ادائیگی پر بھی ٹیکس کی شرح5% کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ محکمہ ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن کے تحت آئندہ مالی سال میں بھی پراپرٹی ٹیکس دو اقساط میں ادا کیا جاسکے گا۔پراپرٹی ٹیکس اور موٹر وہیکل ٹیکس پر نافذ شدہ سر چارج پینلٹی کوآئندہ مالی سال کی صرف آخری دو سہ ماہیوں تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کے لیے برقی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی خریدو فروخت پر حوصلہ افزائی کے لیےElectric Vehicles کی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن فیس کی مد میں 50%اور 75% تک چھوٹ دی جائے گی۔ محکمہ صنعت کے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں 4گنا اضافہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اس شعبے کا بجٹ 3ارب روپے سے بڑھا کر 12ارب روپے کیا جا رہا ہے۔ صنعتی زونز کے جاری منصوبوں کے لیے3ارب 50کروڑروپے کے فنڈز مہیا کئے جا رہے ہیں۔ ایس ایم ای سیکٹر کے فروغ کے لئے گجرات میں 1ارب 30کروڑ روپے کی لاگت سے سمال انڈسٹریل سٹیٹ کا قیام بھی ہمارے ترقیاتی اقدامات میں شامل۔سیالکوٹ میں 1ارب 70کروڑ روپے کی لاگت سے سرجیکل سٹی سیالکوٹ کے منصوبے کا آغاز کیا جا رہاہے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری کے تعاون سے 50کروڑ روپے کی لاگت سے Sialkot Tannery Zone کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے جس کے لئے آئندہ مالی سال میں 35کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
پنجاب روزگار پروگرام
آئندہ بجٹ میں 10 ارب روپے کی مجموعی لاگت سے پنجاب روزگار پروگرام کے تحت آسان شرائط پر قرضے بھی فراہم کئے جارہے ہیں۔
سہولت بازاروں کا قیام
سہولت بازاروں کے مستقل قیام کے لیے اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے جس کے تحت پنجاب کے تما م بڑے شہروں میں ماڈل بازار تعمیر کئے جائیں گے اس کے لئے اگلے سال میں ایک ارب 50کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے۔
طلبہ کے لیے فنی تربیت
آئندہ مالی سال میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے ورک فورس کی تیاری کے لیے پروگرام متعارف کروایا جا رہا ہے جس کے تحت 40ہزار طلبہ کی فنی تربیت کی جائے گی۔ ایمپروونگ ورک فورس پروگرام کے لیے 17ارب روپے کے فنڈز مہیا کئے جائیں گے۔حکومت پنجاب 9ارب روپے کی لاگت سے Skilling Youth for Income Generation کا منصوبہ بھی آغازکر ر ہی ہے۔