کراچی (پبلک نیوز) کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کے اقبالی بیان میں اہم انکشافات، رینجرز اہلکاروں کے قتل کیس میں عزیر بلوچ کے اقبالی بیان کی نقول مجسٹریٹ نے عدالت میں جمع کروادی۔ گینگ وار کے سرغنہ کے اقبالی بیان میں بتایا گیا کہ میں نے 2003 میں لیاری گینگ وار میں شمولیت اختیار کی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کے فیصل رضا عابدی اور جیل سپرنٹنڈنٹ نصرت منگن کے کہنے پر پیپلز پارٹی کے قیدیوں کا ذمہ دار بنا. 2008 میں رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد لیاری گینگ وار کی مکمل کمان سنبھال لی۔2008 میں ہی پیپلز امن کمیٹی کے نام سے مسلح دہشت گرد گروہ بنایا۔ 2008 سے 2013 تک کوئٹہ اور پشین سے اسلحہ منگوایا۔ اسلحہ سے شہر میں اغوا برائے تاوان، قتل و غارت گری کی اور سیاسی جلسوں اور ہڑتالوں کامیاب بنایا۔لیاری میں اپنی مرضی کے پولیس افسران اور اہلکار تعینات کروائے۔ پولیس افسران کو ذوالفقار مرزا، قادر پٹیل اور سینیٹر یوسف بلوچ سے تعینات کروایا۔ ان پولیس افسروں کی سرپرستی میں لیاری میں جرائم کیے۔مارچ 2013 میں اپنے والد فیض محمد عرف فیضو کے قتل کا بدلا لیا۔پولیس افسروں یوسف بلوچ، جاوید بلوچ اور چاند نیازی کی مدد سے ارشد پپو اس کے بھائی اور ساتھی کو اغوا کیا۔ ان تینوں کے سر تن سے جدا کر کے لیاری کی گلیوں میں فٹ بال کھیلا اور لاشوں کو جلا دیا۔ دہشت پھیلانے کے لیے لاشوں کی ویڈیو بنا کر پورے ملک میں پھیلا دی۔عدالت نے آئندہ سماعت پر عزیر بلوچ کے 164 کے بیان پر متعلقہ مجسٹریٹ کو طلب کر لیا۔ عزیر بلوچ کمرہ عدالت میں اس بیان سے منحرف ہو چکا ہے۔