احمد فرہاد بازیابی کیس:اب ایجنسیز کہیں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی:جسٹس محسن اخترکیانی

احمد فرہاد بازیابی کیس:اب ایجنسیز کہیں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی:جسٹس محسن اخترکیانی
کیپشن: احمد فرہاد بازیابی کیس:اب ایجنسیز کہیں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی:جسٹس محسن اخترکیانی

ویب ڈیسک:اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتا شاعر احمد فرہاد بازیابی کیس کی لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ کرلیا اور سیکٹر کمانڈر کو اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کے کیس کی سماعت کی۔اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ سی ڈی آرز ملی ہیں، ان سے ٹریسں کر رہے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ریاست ناکام ہو چکی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی ریاست ناکام نہیں ہوئی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ریکور کرنا ریاست کی مجبوری ہے، ورنہ ریاست کی ناکامی ہے۔سیکریٹری دفاع آئے ہیں؟۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری دفاع آج نہیں آئے، ان کا آرڈر نہیں تھا، لیکن وہ آجائیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سیکریٹری دفاع آئندہ سماعت پر پیش ہوں اور آئی ایس آئی کی ورکنگ سمجھائیں،استفسار کیا کہ آئی ایس آئی میں سیکٹر کمانڈر اور ان کے ماتحت کتنے افراد ہوتے ہیں؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب ایجنسیز کہیں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ احمد فرہاد کی بازیابی نا ہونا تو ریاست کی ناکامی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی اس کو ریاست کی ناکامی نا کہیں،اگر ہم نا پیش کر سکے تو مان لوں گا کہ ریاست ناکام ہو گئی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ورکنگ کی ٹرانسپیرنسی بہت ضروری ہے، امن و امان کی صورتحال خراب بھی ہوتی ہے، پولیس والے ماریں کھاتے ہیں، وردی بھی پھڑواتے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اگر ادارے جوابدہ نا ہوں اور آپ انہیں جوابدہ بھی نا کر سکیں تو کیا ہو گا؟ ایجنسیز کا بھی ایک اسٹرکچر ہو گا، کوئی کسی کو جوابدہ ہو گا، ہم نے سارے سوال سمجھنے اور اس ججمنٹ میں دینے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اب اس آدمی کا ریکور ہونا پیچھے رہ گیا ہے، ہم کچھ چیزیں طے کریں گے، لاپتا افراد کیس میں اب سیکٹر کمانڈر کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا، پولیس افسر اس کا بیان لے کر ضمنی لکھے گا۔

عدالت نے سیکریٹری دفاع کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری دفاع آ کر سمجھائیں کہ آئی ایس آئی ڈیٹا کیسے جمع کرتی ہے،عدالت کو بتایا جائے سیکٹر کمانڈر کے نیچے کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟ہمارا ماننا ہے سارے ادارے قوم کو جواب دہ ہیں، دوسرے اداروں کے لوگوں سے پوچھیں تو کبھی معطل ہوئے ہیں، وہ کبھی نہیں ہوئے ہوں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ مگر پولیس والا بتائے گا کہ 24، 38 بار معطل ہوا ہوں، اب ہم پورے پاکستان میں لاپتا افراد ہونے والے افراد کیلئے میکانزم بنائیں گے۔جج نے قانون دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے، بندہ بازیاب کر لینا معاملے کا حل نہیں ہے، اگلی تاریخ میں بتائیں کون سے قانون کے ذریعے ایجنسی ریگولیٹ ہوتی ہے۔ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جو پروٹیکٹڈ انفارمیشن ہوتی ہے جج اس کو شیئر نہیں کرتا، ایک مسنگ پرسن کے کیس میں سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو کروڑ، کروڑ روپےکو جرمانہ کیا تھا۔میں نے کبھی نہیں دیکھا کسی عدالت نے دہشت گرد کو ضمانت دی ہو، 10 دن ہو گئے ہیں، پتا نہیں بچارے کا کیا حال ہو گا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عدالتی معاونین بھی مقرر کیے جائیں گے، وہ صحافیوں میں سے بھی ہوں گے، سابق آئی جیز کو بھی دعوت دوں گا۔

حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ صحافیوں کو ملک میں مشکلات کا سامنا ہے، آپ کے ریمارکس کے بعد وزیر قانون نے پریس کانفرنس کی، پیمرا کا نوٹیفیکیشن ہے کہ عدالتی کارروائی نشر نہیں ہو گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ وہ نوٹیفکیشن میرے لیے نہیں ہے۔

حامد میر نے بتایا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق صرف لائیو اسٹریمنگ کی رپورٹنگ کی جا سکے گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جو بھی مسنگ پرسن کا کیس اس عدالت میں لگے کا اس کی لائیو اسٹریمنگ کی جائے گی۔ مزید ریمارکس دیے کہ مسنگ پرسن کے کیسز میں لارجر بینچ بننا چاہیے تا کہ معاملہ حل کیا جا سکے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ایس ایس پی آپریشنز کہاں ہیں؟، ایس ایس پی آپریشنز عدالت میں پیش ہو گئے۔

ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت کو بتایا کہ لوکیشن ٹریس کر لی گئی ہے، ٹیم وہاں پر موجود ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ کس ایجنسی کی معاونت حاصل کر رہے ہیں۔

ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا کہ پولیس آئی بی سے معاونت حاصل کر رہی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی شامل نہیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنی عدالت کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

سینئر صحافی حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے پیمرا کے ذریعے میڈیا سے اعلان جنگ کر دیا ہے،انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس عدالت کی کارروائی کیا میڈیا پر رپورٹ کی جا سکتی ہے؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا کو بالکل رپورٹ کرنے کی اجازت ہے، پیمرا کا آرڈر میرے سامنے نہیں، ہم آئندہ اس عدالت کی کارروائی لائیو دکھائیں گے۔

جسٹس محسن کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کے مسنگ پرسنز کے کیسز لائیو دکھانے کا آرڈر جاری کروں گا، یہ بہت مشکل وقت ہے، ہم سب ایک آدمی کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے کھڑے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ تین سالوں میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، ایک ٹیم جو کام کر کے گئی تھی دوسری ٹیم نے اسے ملزم بنا دیا ہے۔

جسٹس محسن کیانی نے مزید ریمارکس دیئے کہ ہم عدالتی معاونین مقرر کریں گے، حامد میر صاحب سے بھی کہیں گے عدالت کی معاونت کریں۔

پیمراء کی جانب سے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر پابندی کے معاملے پر جسٹس محسن اختر کیانی ہم آرڈر جاری کریں گے، ہم سماعت لائیو کریں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگی کمیشن کے رجسٹرار کو بلایا تھا افسوس ناک کارکردگی ہے، وہ ادھر سے مان بھی رہے ہوتے ہیں اور بندہ بھی نہیں چھوڑ رہے ہوتے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن اُن کے ہی رحم و کرم پر ہوتا ہے، جب وہ چھوڑ رہے ہوتے ہیں ادھر سے آرڈر آ جاتا ہے، کیا کوئی مثال ہے کہ کسی انٹیلی جنس افسر کو پراسیکیوٹ کیا گیا ہو؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ جو استثنیٰ ملا ہوا ہے، نا اسی استثنیٰ کو ہی ختم کرنا ہے، مزید کہا کہ یا تو ایجنسیوں کو قانون سازی کر کے 6، 6 ماہ کا اختیار دے دیں۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ نہیں، آئین میں اس کی اجازت نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ آئین ان باقی چیزوں کی اجازت بھی نہیں دیتا جو ہو رہی ہیں۔

ایس پی آپریشنز کوسیکٹر کمانڈر کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم
عدالت نے ایس پی آپریشنز کو سیکٹر کمانڈر کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سیکٹر کمانڈر اگلی سماعت میں ذاتی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ میرا یہ ماننا ہے سکیٹر کمانڈر ایک ایس ایچ او کے برابر ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی  نے ریمارکس دیئے کہ اس کو عدالت میں پیش ہوتے کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے،تمام ادارے قانون کے ماتحت ہیں عدالتوں میں پیش ہونے سے کسی کی بےعزتی نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ  میں وہ آخری آدمی ہونگا جو کسی باوردی افسر کی بےعزتی کرونگا،حکومت نے اپنا سیاسی چہرہ بہت اچھا دکھانا ہوتا ہے تو شفافیت رکھیں،کوئی پارلیمنٹ میں ہمارے متعلق بات کر لے گا کوئی وی لاگ کر لے گا کوئی فرق نہیں پڑتا،عدلیہ اداروں کے ماتحت نہیں ہے وہ اسے ماتحت لانے کی کوشش بھی نہ کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید ریمارکس دیئے کہ جب انہوں نے مداخلت کی کوشش کی بہت خوفناک نتائج آئے ہیں،پاکستان کی تاریخ بدنام ترین تاریخ ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔

پس منظر
واضح رہے کہ 16 مئی کو آزاد کشمیر کے صحافی و شاعر فرہاد علی شاہ کو مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا جس کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ لوہی بھیر میں کیا گیا تھا۔شاعر فرہاد علی شاہ کی زوجہ سیدہ عروج کی مدعیت میں اغوا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔مقدمے میں فرہاد علی کی اہلیہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ میرے خاوند کو نامعلوم افراد نے سوہان گارڈن سے اغوا کیا اور بغیر وارنٹ ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ نامعلوم افراد نے ہمارے گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے توڑے اور ڈی وی آر بھی ساتھ لے گیے۔نامعلوم افراد میرے خاوند کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر لے گیے، میرے خاوند بیمار ہیں اور ان کے لیے ادویات لازم ہیں لہٰذا میرے جاننے کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شاعر احمد فرہاد کو آج ہر صورت بازیاب کرا کے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

Watch Live Public News