سویلین ٹرائلز: سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت

سویلین ٹرائلز: سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
کیپشن: Civilian Trials: Conditional permission of the Supreme Court to pronounce reserved judgments on military courts

ویب ڈیسک: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل میں نئی پیشرفت سامنے آگئی۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی۔ سپریم کورٹ نے کے پی حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا منظور کرلی۔ کے پی حکومت نے سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کےخلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی تھی۔

تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل تھیں۔ جسٹس مسرت ہلالی جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ میں شامل تھیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ صرف ان ملزمان کے فیصلے سنا دیے جائیں جن میں افراد عید سے پہلے رہا ہو سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کوشش کریں عید سے تین چار دن پہلے انہیں چھوڑ دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ٹھیک ہے ہم کوشش کریں گے۔

وکیل فیصل صدیقی نے ریمارکس دیے کہ انہیں کہیں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ باہر نکلیں اور تھری ایم پی او کے تحت دوبارہ گرفتار کرلیں۔ اگر یہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتے تو ابتک باہر آچکے ہوتے۔ 

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ مقدمات انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں؟ انسداد دہشتگردی میں توچودہ سال سے کم سزا ہے ہی نہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اے ٹی سی عدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں۔ ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہیں ہی نہیں۔ 

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر میں کیا دفعات لگائ گئی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشتگردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ پھر ہم ان ملزمان کو ضمانتیں کیوں نہ دے دیں۔ ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سزا معطل کرنے کیلئے پہلے سزا سنانی ہوگی۔ ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے کہ قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔

اٹارنی جنرل نے خصوصی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کی رہا کیے جانے کا امکان ظاہر کر دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دیکر رہا کیا جائے گا۔ مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

عدالت نے تین سال سے کم سزا پانے والوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔