ویب ڈیسک: سپریم کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سوالات اٹھا دیئے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کیس میں لکھے گئے اضافی نوٹ میں انہوں نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون فراہمی انصاف میں کتنی بڑی رکاوٹ بنے گا، پارلیمان کو آئین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے ججز کمیٹی کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ قانون کی حکمرانی کیلئے نظام انصاف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے کہ عدلیہ کو آزادی سے بغیر کسی مداخلت کام کرنے دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے، عدالت کے انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے، حکومت اگر مخصوص مقدمات میں مرضی کے بنچز بنائے تو یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہوگا۔
سپریم کورٹ کے جج نے اپنے نوٹ میں کہا کہ آرٹیل 191 کا سہارا لینے کی اجازت ملی تو عدالتی معاملات میں بذریعہ آرڈیننس بھی مداخلت ہوسکے گی، عدالتی دائرہ اختیار میں اضافہ صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے، ججز کمیٹی اپنے رولز پریکٹس اینڈ پروسیجر کے مطابق ہی بنا سکے گی۔
جسٹس شاہد وحید نے لکھا کہ ججز کی تین رکنی کمیٹی پریکٹس اینڈ پروسیجر میں موجود خامیوں کو رولز بنا کر درست نہیں کر سکتی، اگر ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اسکی جگہ کون لے گا؟ اس بارے میں قانون خاموش ہے۔
انہوں نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ اگر کمیٹی کے دو ارکان چیف جسٹس کو صوبائی رجسٹری بھیجنے کا فیصلہ کریں تو کیا ہوگا؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامی سربراہ ہوتے ہیں انہیں دوسرے صوبے بھیجنے کے نتائج سنگین ہونگے۔
جسٹس شاہد وحید نے لکھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیسیکشن تین کے مطابق 184/3 کی بنیادی حقوق کا کیس تین رکنی بنچ سن سکتا ہے جبکہ سیکشن چار کے مطابق بنیادی حقوق کے معاملے کی تشریح پانچ رکنی بنچ ہی کر سکتا ہے۔۔ان دونوں سیکشنز میں تضاد ہے، سیکشن تین سماعت اور آئینی تشریح کی اجازت دیتا ہے جبکہ سیکشن چار پابندی لگاتا ہے۔