توہین عدالت کیس: عدالت کا عمران خان پر فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ

توہین عدالت کیس: عدالت کا عمران خان پر فردجرم عائد کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہ عمران خان پر دو ہفتوں بعد فرد جرم عائد کی جائے گی، عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں‌. عدالت نے فیصلے میں‌کہا ہے کہ 22 ستمبر کو عمران خان پر فرد جرم عائد کی جائے گی. خاتون جج کو دھمکی دینے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس پر سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بینچ میں شامل ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے وکیل حامد خان کے ساتھ عدالت پیش ہوئے، عدالتی معاونین منیر اے ملک، حامد علی خان اور پاکستان بار کونسل سے اختر حسین عدالت پیش ہوئے،اس کے علاوہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

حامد خان کے دلائل :‌

سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 31 اگست کو عدالت نے ضمنی جواب جمع کرنے کی ہدایت کی تھی،عدالتی حکم پر سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کے حوالے سے جواب میں ذکر کیا گیا،سپریم کورٹ کے طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسسز ہمارے کیس سے متعلقہ نہیں ہے۔ حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے کا حوالہ دونگا، سپریم کورٹ نے اپنے 2014 کے فیصلے میں جو گائڈ لائن دی تھی اس پر دلائل دونگا۔ اس پر عدالت نے کہا کہ توہین عدالت کے تین اقسام ہیں جوڈیشنل توہین، کریمنل توہین اور سول توہین ہیں، طلال چوہدری اور دانیال عزیز نے عدالتوں پر الزامات لگائے تھے، آپ ہمارے اوپر تنقید کرے یا کچھ کرے ہم توہین عدالت نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ کریمنل توہین بڑا خطرناک ہے، آپ کو آخری بار کہا تھا کہ یہ کریمنل توہین ہے، ماتحت عدلیہ کا وقار ضروری ہے، مجروح کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، آپکا جمع کردہ ضمنی جواب غور سے پڑھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یہ چیز سمجھائی تھی کہ یہ معاملہ کریمنل توہین عدالت کا ہے،زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں۔ عمران خان کے وکیل حامد خان عدالت کے کہنے پر توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنا یا۔وکیل حامد خان نے کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کریمنل توہین میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کرسکتے،ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، کریمنل contempt میں آپ یہ plea نہیں کے سکتے کہ میرا مقصد تھا،آپ کا جواب ہم نے تفصیلی طور پر پڑھا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں justification دینے کی کوشش کی، کیا ایک سابق وزیراعظم کا یہ موقف درست ہے کہ قانون کے بارے میں علم نہیں تھا۔ دوران سماعت حامد خان نے سپلیمنٹری جواب کا حصہ پڑھنا شروع کر دیا۔ شہباز گل پر ٹارچر سے متعلق جملہ پڑھنے پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپلیمنٹری جواب میں ٹارچر لکھا گیا، مبینہ ٹارچر کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں پر اتنا بھی نہیں لکھا کہ alleged ٹارچر، آپ جسٹیفائی کررہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے، یہ بتائیں کہ یا تو فیصلے جلسوں میں ہونگے اور یا عدالتوں میں، ستر سالوں میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے، اگر سپریم کورٹ کے جج کے لیے اسی آواز میں وہی الفاظ کا استعمال ہوتا تو یہی جواب آتا۔جس پر حامد خان نے کہا کہ ہمارے لئے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ تب الزام کیا ہوتا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ الفاظ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے لیے استعمال ہوتے تو کیا یہی آپکا یہ جواب ہوتا ،جس پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ وہ تو حالات کے مطابق جواب ہوتا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بات جج کی feelings مجروح ہونے کی نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی کی ہے۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟ جسٹس بابر ستار کے سوالات پر عمران خان نے شعیب شاہین کو کہا کہ حامد خان سے پوچھو میں روسڑرم پر آنا چاہتا ہوں۔ جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ایک سیاسی لیڈر جلسے میں کسی جج کے خلاف ایکشن کا کیسے کہہ سکتا ہے، جس پر حامد خان نے کہا کہ ہم نے لیگل ایکشن کی بات کی ہے، کہ ہم لیگل ایکشن لیں گے۔اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ لیگل ایکشن کے لیے بھی طریقہ کار اور فورمز موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جلسے میں بالکل بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ کسی کے خلاف ایکشن لیں گے، حامد صاحب ججز کی فیلنگز چھوڑ دے آپ، کسی جج کی فیلنگز نہیں ہے۔ حامد خان نے کہا کہ پشاور جلسے میں بھی کہا گیا کہ آزاد اور خود مختیار عدلیہ چاہتے ہیں، تمام پارٹی کارکنان کو منع کیا گیا کہ خاتون جج کے حوالے کوئی سخت الفاظ نہ کہیں۔ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیا آپ کا موکل اپنے بیان کو جسٹیفائی کرنا چاہتے ہیں؟، جسٹیفائی کرنا بھی تو ایک قسم کی دھمکی ہے، جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے۔ دوران سماعت عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان پرسوں کی تقریر پر وضاحت کیلئے روسٹرم پر آنا چاہتے ہیں، عمران خان کے مطابق پرسوں کی جس تقریر کا حوالہ دیا گیا وہ مس رپورٹ ہوا۔جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ ہم تقریر یہاں چلا کر دیکھ لیں گے، نہال ہاشمی کیس میں کسی جج کا نام نہیں تھا معافی بھی مانگی گئی لیکن پھر بھی معافی نہیں ملی۔حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی تقریر یکسر مختلف ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے بارے میں اگر ایسا کچھ کہتا تو ہم کبھی بھی توہین عدالت کا نوٹس نہ لیتے، جس پر خامد خان نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہمیں عدلیہ کا احترام ہے، ہم نے کبھی فرق نہیں کیا کہ اعلیٰ عدلیہ ہے یا ماتحت عدلیہ ہے، اعلیٰ عدلیہ ہو یا ماتحت عدلیہ ہم سب کی قدر کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے یہ بتائے کہ مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا؟، آپکا جواب صرف ایک جسٹیفیکیشن ہے اور کچھ نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور فتح مکہ سے ہمیں سیکھنا چاہیے، ایک خاتون ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں کیسے الفاظ استعمال کئے گئے۔ عدالت نے حامد خان کو ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل مکمل کریں۔حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم نے ضمنی جواب میں بار بار regret کا استعمال کیا،ہم نے کہا کہ جو کہا گیا غیر ارادی طور پر تھا، توہین عدالت کا کوئی ارادہ نہیں، ہم کبھی بھی توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے، ہم نے سپریم کورٹ سے بھی یہی استدعا کی تھی اور یہاں بھی کریں گے، ہم آئندہ کے لیے عدلیہ سے متعلق محتاط رہیں گے ۔ عمران خان کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہوگئے، حامد خان نے اپنے دلائل کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر معاملے کو ختم کرنے کی استدعا کی۔

اٹارنی جنرل اشتراوصاف کے دلائل:‌

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب سپریم کورٹ سے درخواست گزار کو 2014 میں ریلیف ملا وہ پرنسپل ہونا چاہیے، سپریم کورٹ میں جو کیس 2014 میں تھا آج بھی وہی کیس دوبارہ لگا ہے، درخواست گزار نے ضمنی جواب جمع کیا مگر کوئی بیان حلفی جمع نہیں کرائی، میرے فاضل دوست نے کہا کہ آئندہ کے لیے ایسے بیانات نہیں ہونگیں، یہاں پر جواب جمع کرایا گیا مگر بیانی حلفی نہیں لی گئی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے، اُس تقریر کے بعد والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس ہے، میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کر دوں گا، عمران خان نے دوبارہ انہی خاتون جج کا حوالہ دیا۔

منیر اے ملک کے دلائل :‌

عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل میں کہا کہ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے، توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، یہ بات بھی مگر اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمُو پذیر ہے، عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائیکورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر تقریر کااثر پڑا۔ منیر اے ملک نے کہا کہ الفاظ افسوسناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں، توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے، ایک معافی پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے دوسرا کنڈکٹ پر، یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کیلئے احترام کا اظہار کیا گیا۔ منیر اے ملک نے کہا کہ اسلم بیگ کیس میں کوئی معافی نہیں تھی۔چیف جسٹس نے منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ اسلم بیگ کون تھا؟ جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ اگر یہی سب اسلم بیگ یا عمران خان یا دیگر کے کیس میں ہوا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں، عدالت کو کوئی راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔ عمران خان کے جواب پر منیر اے ملک نے توہین عدالت ختم کرنے کی استدعا کردی۔

مخدوم علی خان کے دلائل:

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عوامی اجتماع سے جوش و خطابت میں جو کہا گیا اس سے شاید جوڈیشل ایڈمنسٹریشن متاثر ہو، پبلک انٹرسٹ صرف ایڈمنسٹریشن آف جوڈیشری میں ہے، آپ نے خود کہا کہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے۔ مخدوم علی خان نے سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا عدلیہ مخالف تقریر کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تو ٹویٹر اکاؤنٹ بھی معطل کیا گیا ہے، لیڈر کا رول معاشرے میں اہم ہے جو معاشرے کو بدل سکتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاونٹ پیروکاروں کو اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا۔ عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بھی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی رائے دے دی۔ چیف جسٹس کا دوران سماعت کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت نہیں، جب تک سیاسی جماعتیں فیصلہ نہ کرے ، سوشل میڈیا سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے وہ بتائے ؟جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ میری رائے ہوگی جمع شدہ جواب کو منظور کیا جائے، اور نوٹس ڈسچارج کیا جائے، دوسرا یہ کہ توہین عدالت مرتکب ہونے والے کو بیان حلفی جمع کرنے کا موقع دے، میرے خیال میں معافی کا لفظ ضروری نہیں ، عدالت عمران خان کو ایک چانس دے سکتی ہے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ماتحت عدلیہ کے جج کے حوالے سے دھمکی پر پانچ رکنی بینچ نے نوٹس لیکر سماعت کی، عوام کو ایک پیغام دینا چاہیں کہ کسی سیاسی لیڈر کو عدلیہ کو دھمکیوں کی اجازت نہیں، اس عدالت نے فردوس عاشق اعوان کیس میں واضح فیصلہ دیا ہے۔ خیال رہے کہ عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دینے والی ایڈیشنل جج زیبا چوہدری کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آپ کے خلاف کارروائی کریں گے۔ شہباز گل کی گرفتاری اور جسمانی ریمانڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ شہباز گل کو جس طرح اٹھایا اور دو دن جو تشدد کیا، اس طرح رکھا جیسا ملک کا کوئی بڑا غدار پکڑا ہو، آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو ہم نے نہیں چھوڑنا، ہم نے آپ کے اوپر کیس کرنا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہیے کہ ایک آدمی کو تشدد کیا، کمزور آدمی ملا اسی کو آپ نے یہ کرنا تھا، فضل الرحمان سے جان جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رجسٹرار کی رپورٹ پر 22 اگست کو معاملے کا نوٹس لیا تھا، جس کے بعد 23 اگست کو تین رکنی بینچ نے کیس پر پہلی سماعت کی تھی ۔ عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں 31 اگست کو طلب کیا گیا تھا۔ عدالت نے معاملے پر لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ دوسری جانب عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کے نوٹس پر جواب داخل کرا دیا گیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے ایڈووکیٹ حامد خان اور بیرسٹر سلمان صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری شوکاز نوٹس پر جواب جمع کرایا۔ اپنے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میں سمجھا تھا کہ زیبا چوہدری جوڈیشل نہیں ایگزیکٹو مجسٹریٹ ہیں، مجھ سے سمجھنے میں غلطی ہوئی، تاہم اپنے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے بینچ پر اعتراض بھی لگایا گیا۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔