نو منتخب بھارتی وزیراعظم اور شہباز شریف میں آئندہ ماہ ملاقات، اہم بریک تھرو ہوگا؟

mns & modi
کیپشن: mns & modi
سورس: google

 ویب ڈیسک : (سہیل احمد) عالمی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے کہ آئندہ ماہ قزاقستان میں ایس سی او اجلاس کے دوران  نومنتخب بھارتی وزیراعظم نریندرامودی کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں اہم بریک تھرو کا امکان ہے۔

 عالمی میڈیا  نے نواز شریف کی جانب سے کی گئی ٹویٹ اور وزیرِ اعظم مودی کے اس پر فوری جواب کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان ’بیک چینل مذاکرات‘ اور بریک تھرو کا امکان بڑھ  گیا  ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے  بھارتی صحافی سدھیندرا کلکرنی  نے کہا کہ ’اب ایک بار پھر نواز شریف نے مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا جن کے ساتھ ان کا اچھا ذاتی تعلق ہے اور شہباز شریف بھی انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے حوالے سے ماضی میں بات کر چکے ہیں۔‘

 تاہم بہتر ہوتا کہ نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف  کو بھی  مدعو کیاجاتا، ’لیکن اب ٹویٹس کے ذریعے دونوں ممالک کے رہنماؤں میں بات چیت خوش آئند ہے۔

 ’’ ایکس’’ پر ٹویٹس ، کیامسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہوگا؟

 بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب شہباز شریف اور ان کے بڑے بھائی سابق وزیراعظم نوازشریف کے مبارکباد کے پیغامات کا جواب دیتے ہوئے ان کی امن کی پیشکش پر بھارتی شہریوں کی ’سیکیورٹی اور خوشحالی‘ کو اپنی ترجیح قرار دیا، مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے مودی کو مسلسل تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنھالنے پر مبارکباد دی تھی۔ 

 برف پگھل گئی یا ذرا دیر لگے گی؟

 خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والی صحافی سہاسنی حیدر کا خیال ہے کہ نواز شریف کے پیغام کے مقابلے ’مودی کے جواب میں شاید اتنی گرمجوشی نہیں تھی لیکن یہ ضرور تھا کہ وہ ان کے خیالات کی قدر کرتے ہیں۔‘

اگرچہ پیغامات کے اس تبادلے کو بات چیت میں بحالی کے اعتبار سے ایک مثبت پیشرفت سمجھا جا رہا ہے تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ ابھی بھی برف پگھلنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

انڈین صحافی سہاسنی حیدر کا کہنا ہے کہ باہمی تعلقات میں بہتری سے قبل ابتدائی طور پر دونوں ممالک میں ہائی کمشنرز کی بحالی، زراعت کے شعبے میں تجارت اور افغانستان ٹرانزٹ کھولنے جیسے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

 مذاکرات ہوئے بھی تو موضوع امن اور سیکیورٹی ہی ہوگا؟

 جبکہ سدھیندرا کلکرنی کے مطابق دونوں ملکوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر کے مسئلے پر بات چیت صرف ’امن اور سکیورٹی کے حوالے سے ہی‘ ہوسکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ’ضرورت پڑنے پر بات کرتا ہے۔‘ اس حوالے سے انھوں نے ایل او سی پر کراس فائرنگ کی روک تھام کا حوالہ دیا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اس حوالے سے سب کی نظریں جولائی کے دوران قزاقستان میں ایس سی او اجلاس کے دوران مودی اور شہباز شریف کی شرکت پر رہیں گی۔ 

 تیسری بار کے وزیراعظم مودی تاریخ ساز قدم اٹھانے کی راہ پر

 یال رہے کہ چار جون کو انڈین انتخابات کے نتائج اکثر اندازوں اور ایگزٹ پولز کے برعکس آئے تھے جن میں انڈین وزیرِ اعظم نریندرا مودی کو دو تہائی اکثریت ملنے کی پیشگوئی کی گئی تھی تاہم نتائج میں نریندر مودی کو ان کے اپنے اندازوں کے مطابق کم سیٹیں ملیں اور انھیں حکومت بنانے کے لیے اتحادی جماعتوں کے ساتھ کی ضرورت پڑی کیونکہ بی جے پی خود 272 سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہی اور 240 نشستیں ہی حاصل کر سکی۔’الیکشن مہم میں پاکستان مخالف اور مسلمان مخالف ایجنڈا کام نہیں کیا اور بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں۔ اس لیے وہ اب ممکنہ طور پر پاکستان مخالف بیانیے پر فوکس نہیں کریں گے۔‘

’انھیں اب اپنے اتحادیوں سے بات کر کے بھی آگے بڑھنا پڑے گا۔ یہ مودی کا تیسرا دورِ حکومت ہے اور انھیں تاریخ میں ایک ایسے وزیرِ اعظم کے طور پر دیکھا جائے گا جنھوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا تھا۔

 پاکستان اور چین کیلئے بھارتی خارجہ حکمت عملی 

  دوسری طرف بی جے پی رہنما اور بھارت کے دوسری دفعہ وزیرخارجہ کا قلمدان سنبھالنے والے ایس جے شنکر  نے کہا ہے کہ مودی حکومت کے تیسرے دور میں  ہم پاکستان سے سرحد پار دہشت گردی کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے ۔

 وہ اپنے دفتر میں چارج سنبھالنے کے بعد میڈیا کو انٹرویو دے ہے تھے ۔

ایس جے شنکر نے کہا کہ نریندر مودی حکومت 3.0 کی توجہ چین کے ساتھ سرحدی مسائل کا حل تلاش کرنے پر مرکوز رہے گی۔

"کسی بھی ملک میں اور خاص طور پر جمہوریت میں، ایک حکومت کے لیے لگاتار تین بار منتخب ہونا بہت بڑی بات ہے۔ اس لیے دنیا یقینی طور پر محسوس کرے گی کہ آج ہندوستان میں کافی سیاسی استحکام ہے... جیسا کہ پاکستان اور چین کا تعلق ہے، ان ممالک کے ساتھ تعلقات مختلف ہیں، اور وہاں کے مسائل بھی مختلف ہیں، چین کے حوالے سے ہماری توجہ سرحدی مسائل کا حل تلاش کرنے پر مرکوز رہے گی۔

 جبکہ "پاکستان کے ساتھ، ہم برسوں پرانے سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیں گے۔"

  نوازشریف اور نریندرا مودی کی تلخ وشیریں یادیں

 بی بی سی کے مطابق نواز شریف کے 2013 اور نریندر مودی کے 2014 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان کچھ خوشگوار ملاقاتیں ہوئی تھیں۔

سابق انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ اپنی کتاب ’اینگر مینجمنٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ مودی نے 2014 میں اپنی تقریب حلف برداری سے پہلے ہی پاکستانی قیادت سے رابطہ کر لیا تھا تاکہ نواز شریف کو باقی سارک رہنماؤں سمیت تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا جا سکے۔

آفیشل سطح پر دعوت نامہ قبول کرنے سے پہلے ہی نواز شریف ’ایک انفارمل چینل کے ذریعے اپنی شرکت کے لیے رضا مندی ظاہر کر چکے تھے۔

نواز شریف کی شرکت پر نریندر مودی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’ایک بار پھر میں میری والدہ کو ساڑھی بھیجنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘ مودی نے نواز شریف کو لکھا تھا کہ ’میں آپ کے اور آپ کی حکومت کے ساتھ لڑائی اور تشدد سے پاک ماحول میں کام کرنے کا منتظر ہوں جو ہمارے باہمی تعلقات میں ایک نئے موڑ کا آغاز ہوگا۔‘

اجے بساریہ کے مطابق اس ملاقات کے بعد مودی نے آئندہ 18 ماہ میں مزید پانچ ملاقاتوں کے ذریعے نواز شریف کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کیا۔

4 کی اس ملاقات کے بعد 25 دسمبر 2015 کو مودی نے لاہور کا دورہ کیا 11 سال بعد کسی بھی   بھارتی وزیر اعظم کا پاکستان کا دورہ  تھا ، اس سے قبل 2004 میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

 کچھ ہی دنوں بعد مقبوضہ کشمیر میں پٹھان کوٹ حملے نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو بُری طرح متاثر کیا۔ اور 2016  کے بعد نریندرا مودی نے پاکستان سے رابطہ ہی ختم کر دیا۔

Watch Live Public News