ویب ڈیسک: وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پرانی درآمد شدہ گاڑیوں کی تین سال تک پاکستان میں فروخت پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق موجودہ امپورٹ پالیسی میں ترمیم متعارف کروائی جا رہی ہے جس کے تحت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے بعد تین سال تک اُنہیں فروخت نہیں کیا جا سکے گا۔
خیال رہے مالی سال 2024-25 کا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
پرانی درآمد شدہ گاڑیوں کی مقامی مارکیٹ میں فروخت پر پابندی کے ابتدائی فیصلے کی مقامی آٹو انڈسٹری حمایت کر رہی ہے تو دوسری جانب آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پرانی درآمد شدہ گاڑیوں کی فروخت پر پابندی لگانے کی وجوہات
پرانی درآمد شدہ گاڑیوں کی فروخت پر پابندی کی وجوہات کے متعلق ایف بی آر کے عہدیدار نے کہا کہ حکومت کے اس اقدام سے مقامی آٹو سیکٹر کو فروغ ملے گا۔
مزید یہ کہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس اقدام سے حکومت 52 ارب روپے کا اضافی ٹیکس حاصل کرسکتی ہے۔
’حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ درآمد کنندگان سمندر پار پاکستانیوں کے پاسپورٹ کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔ کیونکہ ایسی گاڑیاں بیگج سکیم کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے نام پر درآمد کی جاتی ہیں اور پھر کمرشل مارکیٹوں میں فروخت کر دی جاتی ہیں۔‘
ایف بی آر کےعہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک حالیہ اجلاس میں ادارے کو پرسنل بیگیج سکیم، ٹرانسفر آف ریزیڈنس سکیم اور گفٹ سکیم کے بڑے پیمانے پر غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی سکیموں کے تحت بیرون ممالک سے پرانی گاڑیاں درآمد ہوتی ہیں اور پاکستان میں فروخت کی جاتی ہیں جبکہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
'اس کے علاوہ ایسی سکیموں کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے حکومت نے ابھی ابتدائی فیصلہ کیا ہے کہ ان سکیموں کے تحت پاکستان لائی جانے والی استعمال شدہ کاروں کو تین سال تک فروخت نہیں کیا جا سکے گا۔‘
انڈس موٹر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو علی اصغر جمالی نے جاری بیان میں حکومت کی اس تجویز کی حمایت کی ہے۔
علی اصغر جمالی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کی پرانی درآمد شدہ گاڑیوں کی درآمدی پالیسی سے حکومت اور مقامی انڈسٹری دونوں کو بھاری نقصان ہو رہا ہے جس میں ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ مقامی انڈسٹری کو بھی فائدہ ہو اور حکومت کا ٹیکس بھی اکھٹا ہو۔
انہوں نے حکومتی تجویز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پرانی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی سے حکومت کو 52 ارب روپے کا اضافی ٹیکس ملے گا جو موجودہ معاشی حالات میں حکومت کی اہم ضرورت ہے جبکہ پابندی سے مقامی سطح پر گاڑیوں کی صنعت کو فروغ ملے گا اور لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی ملیں گے۔
’مقامی صنعت کے فروغ سے ہنر مند افراد کی فہرست میں اضافہ ہو گا جو نہ صرف مقامی سطح پر فائدہ مند ہے بلکہ ایسے افراد بیرون ممالک جا کر ملک میں ترسیلات زر بھی بھیج سکتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ انڈس موٹرز کمپنی کے تربیت یافتہ 150 کے قریب افراد کو ٹویاٹا جاپان بھیجا گیا ہے جبکہ مقامی سطح پر تیار گاڑیوں کے 50 یونٹ افریقی ممالک کو ایکسپورٹ بھی کیے جائیں گے۔
آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین میاں شعیب احمد کا کہنا ہے کہ حکومت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے کوئی متبادل پالسی لائے بغیر اگر امپورٹ پالیسی میں ترامیم کرتی ہے تو یہ یک طرفہ فیصلہ ہو گا۔
آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کا وزیراعظم کو خط
آل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن (اپڈا) نے وزیر اعظم کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایسوسی ایشن کے چیئرمین میاں شعیب احمد نے کہا ’ہم اس بات کی نفی نہیں کرتے کہ پرانی درآمد شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت امپورٹ پالیسی میں ترامیم کرنا مقامی کار مافیا کو مزید مضبوط بنانے کے مترادف ہو گا۔ حکموت ہمارے لیے کوئی متبادل امپورٹ پالیسی لائے تاکہ بینکنگ چینل کے ذریعے ہی ایسی گاڑیوں کی درآمد کی جا سکے۔‘
سمندر پار پاکستانیوں کی حق تلفی
اپڈا کے چیئرمین میاں محمد شعیب کا کہنا ہے کہ سمندر پار پاکستانی موجودہ امپورٹ پالیسی کے ذریعے ہی استعمال شدہ گاڑیوں کو پاکستان درآمد کرتے ہیں۔ اگر حکومت کوئی ایسا قدم اٹھاتی ہے تو اس سے سمندر پار پاکستانی متاثر ہوں گے مزید برآں استعمال شدہ گاڑیاں کی مقامی مارکیٹ میں فروخت مقامی کار اسمبلرز کی اجارہ داری کو کم کرتی ہے۔