فوجی تحویل میں لیے گئےافسران کے نام سامنے آگئے

 فوجی تحویل میں لیے گئےافسران کے نام سامنے آگئے
کیپشن: فوجی تحویل میں لیے گئےافسران کے نام سامنے آگئے

ویب ڈیسک: سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کیلئے سہولت کاری کے الزام میں فوجی تحویل میں لئے گئے تینوں ریٹائرڈ افسران کے نام سامنے آ گئے۔

تفصیلا ت کے مطابق  ذرائع کاکہنا ہے کہ گرفتار افسران میں 2ریٹائرڈ بریگیڈیئر اور ایک ریٹائرڈ کرنل شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کانوٹس درست نہیں،گرفتاری کوغیرقانونی قراردےسکتے ہیں،اسلام آبادہائیکورٹ

ذرائع کاکہنا ہے کہ فوجی تحویل میں لئے گئے ریٹائرڈ افسران  میں بریگیڈیئر(ر)غفار، بریگیڈیئر (ر) نعیم  اور کرنل (ر)عاصم بھی شامل ہیں،ابتک ریٹائرڈ فوجی افسران سمیت 8افراد حراست میں لئےگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل فیض حمید کےکورٹ مارشل کےسلسلے میں مزید 3 ریٹائرڈ فوجی افسران گرفتار

ذرائع کے مطابق تینوں افسران پیغام رسانی کا کام کرتے تھے،تینوں افسران سیاسی جماعت اور فیض حمید کے درمیان رابطہ کاری میں شامل تھے،دونوں ریٹائرڈ بریگیڈیئرکا تعلق چکوال سے ہے،دونوں ریٹائرڈ بریگیڈیئر فیض حمید کے خاص اور منظور نظر افسران تھے،دونوں افسران ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی پیغام رسانی اور سہولت کاری میں ملوث تھے۔ 

قبل ازیں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تین ریٹائرڈ افسران فوجی نظم و ضبط کی خلاف کے سلسلے میں تحویل میں لیا گیا، ریٹائرڈ افسران اور ان کے ساتھیوں سے مزید تفتیش جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید سے متعلق عمران خان کا بڑابیان آگیا

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق تین ریٹائرڈ افسران کو فوجی نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر تحویل میں لیا گیا، کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

 آئی ایس پی آر کے مطابق تینوں ریٹائرڈ افسران سیاسی مفادات کی ایما پر اور ملی بھگت سے عدم استحکام کو ہوا دے رہے تھے۔

واضح رہے کہ  12 اگست کو نجی ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کے معاملے میں مداخلت سمیت پاکستان آرمی ایکٹ کی دیگر خلاف ورزیوں پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا تھا اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر ٹاپ سٹی کی کورٹ آف انکوائری شروع کی گئی۔

Watch Live Public News