ویب ڈیسک: قطر میں اسرائیلی مذاکرات کاروں کے ساتھ دو روزہ بات چیت کے بعد امریکہ کی جانب سے پیش کردہ غزہ میں فائر بندی کے منصوبے میں ’ نئی شرائط‘ کو حماس نے مسترد کر دیا ہے جبکہ مذاکرات کا اگلا دور اب اگلے ہفتے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہوگا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق غزہ میں فائربندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ’ہم پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اس ہفتے کے آخر میں اسرائیل کا دورہ کریں گے تاکہ نئی تجویز میں پیش رفت ہو سکے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’وزیر خارجہ خطے کے تمام فریقوں پر زور دیں گے کہ وہ کشیدگی میں اضافے یا کسی ایسے دوسرے اقدام سے گریز کریں، جس سے معاہدے کو حتمی شکل دینے کی صلاحیت کو نقصان پہنچے۔
31 جولائی کو ایران میں ایک حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد سے واشنگٹن نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر غزہ میں فوری فائر بندی پر زور دیا ہے۔ اس قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا، جس سے جوابی کارروائی کی دھمکیوں اور مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
مصری، قطری اور امریکی ثالث اس فریم ورک کی تفصیلات کو حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کا ابتدائی خاکہ جو بائیڈن نے مئی میں پیش کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز اسرائیل نے پیش کی تھی۔
لیکن مہینوں سے جاری مذاکرات اب تک فائر بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی تفصیلات طے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ثالثوں نے کہا کہ دوحہ میں دو روزہ مذاکرات ’سنجیدہ اور تعمیری‘ تھے۔
ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا کہ امریکہ نے’قریب لانے والی تجویز‘ پیش کی ہے جس میں اگلے ہفتے قاہرہ میں مذاکرات کے نئے دور میں جلد ایک معاہدے کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
حماس نے فوری طور پر تازہ ترین منصوبے میں اسرائیل کی جانب سے ’ نئی شرائط‘ کی مخالفت کا اعلان کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے امریکی صدر بائیڈن کے فریم ورک کا حوالہ دیتے ہوئے ثالثوں پر زور دیا کہ وہ حماس پر ’27 مئی کے اصولوں کو قبول کرنے‘ کے لیے ’دباؤ‘ ڈالیں۔
تاہم اردن نے معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام نتن یاہو پر عائد کیا اور وزیر خارجہ ایمن صفادی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’ہر اس شخص کی جانب سے دباؤ ڈالا جائے جو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔‘
’استثنیٰ‘
باخبر ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ حماس نے جن شرائط پر اعتراض کیا ان میں مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کو رکھنا اور اسرائیلی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق شرائط شامل ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیل پر فائر بندی پر رضامندی کے لیے سفارتی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی اور ان کے فرانسیسی ہم منصب سٹیفن سیجرنے نے جمعے کو اسرائیل میں غزہ میں فائر بندی پر زور دینے کے لیے بات چیت کی۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے اپنے ہم منصبوں سے کہا ہے کہ اگر ایران اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو وہ ایران پر ’حملہ کرنے‘ میں غیر ملکی حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔
ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ اگر ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اسے ’تباہ کن‘ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے مہلک حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی اور فلسطینیوں کے خلاف خاص طور پر غزہ تنازع شروع ہونے کے بعد سے آبادکاروں کے تشدد میں اضافے پر حکومتی وزرا سمیت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ درجنوں اسرائیلی شہری، جن میں سے کچھ نقاب پوش تھے، نابلس کے مغرب میں واقع جیت گاؤں میں داخل ہوئے اور علاقے میں گاڑیوں اور عمارتوں کو آگ لگا دی، پتھر اور مولوتوف کاک ٹیل پھینکے اور ایک فلسطینی شخص کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
مغربی کنارے میں قائم فلسطینی وزارت خارجہ نے اس حملے کو ’منظم ریاستی دہشت گردی‘ قرار دیا ہے۔
یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزف بوریل نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کریں گے۔
بوریل نے ایکس پر پوسٹ کیا: ’آئے دن، تقریباً مکمل استثنیٰ کے ساتھ اسرائیلی آباد کار مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کو ان ناقابل قبول اقدامات کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔‘
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزال سموٹریچ، جو مغربی کنارے کی بستیوں کے حامی ہیں، نے جمعرات کو دیگر اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ’مجرموں‘ کی جانب سے کیے جانے والے حملے کی مذمت کی۔