چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے تفتیشی اداروں میں حکومتی وزرا کی مداخلت پر ازخود نوٹس لینے کے معاملے پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا اہم بیان سامنے آگیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے نجی ٹیلی وژن کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ایک تاثر کو بنیاد بنا کر اس پر ازخود نوٹس لینا اہم قومی ادارے کی ساکھ کے لئے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ترمیم خلاف قانون ہو تو عدالت کی جانب سے اسے غیر آئینی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم قانون بدلنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ میری ضمانت لینے والے جج کو واٹس ایپ پر ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ کیا غلط کیس بنانے والے کا ٹرانسفر نہیں ہونا چاہیے تھا؟ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سابق مشیر داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے چیلوں نے غلط مقدمے بنائے تھے۔ صدارتی ریفرنس کی تشریح پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ 3 ججوں معزز کیساتھ باقی 2 جج صاحبان بھی ہمارے لئے معزز ہیں۔ ملک کی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک دشمنوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کیساتھ غلط معاہدہ کیا۔ اب ہم اس کیساتھ ایسا درست معاہدہ کریں گے جس سے غریب عوام متاثر نہیں ہوگی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مدت بھی پوری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کو بھی بحال کیا جائے گا۔ حکومت آج بڑے فیصلوں کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ نے احتساب کےعمل میں مداخلت کا نوٹس لے لیا خیال رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی شخصیات کی جانب سے احتساب کے عمل میں مداخلت کا سختی سے نوٹس لے لیا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ افسروں کے تبادلوں اور تحقیقات میں مداخلت سے نظام انصاف میں خلل پڑ سکتا ہے۔ حکومتی مداخلت سے شواہد ضائع ہونے اور پراسیکیوشن پر اثرانداز ہونے کا خدشہ ہے۔ نوٹس کے مطابق اہم افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ نظام انصاف میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس مداخلت سے شواہد میں ردوبدل اور غائب ہونے کا خدشہ ہے۔ احتساب قوانین میں تبدیلی نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔ عدالت کے مطابق اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مداخلت سے ریکارڈ ٹیمپرنگ کا بھی خدشہ ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجزبینچ سماعت کرے گا۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس ساتھی جج کی نشاندہی پر لیتے ہوئے 19 مئی کو دن ایک بجے سماعت کیلئے مقرر کر دیا ہے۔