ویب ڈیسک: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سمیت ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے والے اعلیٰ حکام کے جسد خاکی قم پہنچ گئے ہیں جبکہ ان کی نماز جنازہ کل تہران میں ادا کی جائے گی۔ اعلیٰ شخصیات کی شہادت پر ایران میں 5 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز ایرانی صدر ابراہیم رئیسی آذربائیجان کے سرحدی علاقے میں ڈیم کے افتتاح کے بعد واپس تبریز آ رہے تھے کہ تبریز سے 100 کلو میٹر دور ضلع اُوزی اور پیر داؤد قصبے کے درمیانی علاقے میں پرواز کے آدھے گھنٹہ بعد صدر کے ہیلی کاپٹر کا دیگر ہیلی کاپٹرز سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر خراب موسمی حالات میں دیزمر جنگل میں کریش ہوا، 15 گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہنے والے سرچ آپریشن کے بعد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ کے جسد خاکی مل گئے، کچھ لاشیں جل کر ناقابل شناخت ہو گئیں، سرچ آپریشن کی کامیابی کے بعد تمام شہداء کے جسد خاکی تبریز منتقل کر دیئے۔
ایران کے صدر کیساتھ وزیر خارجہ امیر حسین عبدالہیان، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے سید محمد الہاشم، مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی، تبریز کے امام سید محمد الہاشم، صدر کے سکیورٹی کمانڈر سردار مہدی موسوی، پائلٹ کرنل سید طاہر مصطفوی، پائلٹ کرنل محسن دریانوش اور میجر بہروز بھی سوار تھے جو جام شہادت نوش کر گئے۔
نمازجناہ ادا
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سمیت ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی نماز جنازہ آج ادا کردی گئی، ایرانی صدر کو آبائی شہر مشہد میں امام علی رضا کے روضہ کے احاطہ میں سپرد خاک کیا جائے گا، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایران میں 5 روزہ سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی زندگی پر ایک نظر
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی جنہیں ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے متوقع جانشینوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے، ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک عالم اور ابراہیم صرف پانچ برس کے تھے جب وہ دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔
اُنہوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا، ایک طالبعلم کے طور پر انہوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کیخلاف مظاہروں میں حصہ لیا، شاہ ایران سنہ 1979ء میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہو گئے تھے۔
انقلاب کے بعد انہوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کی زیر تربیت بھی تھے جو سنہ 1981ء میں ایران کے صدر بنے۔
ابراہیم رئیسی صرف 20 برس کی عمر میں تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر کے عہدے پر فائز ہوئے، 2014ء میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
2017ء میں ابراہیم رئیسی نے صدارت کا امیدوار بن کر مبصرین کو حیران کر دیا تھا، 2017ء کے انتخابات میں حسن روحانی، جو ابراہیم کے ایک ساتھی عالم تھے، انہوں نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی تھی۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا کیریئر 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں شروع ہوا، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب تھے، انہوں نے 2021ء میں اقتدار سنبھالا جس کے بعد انہیں کئی سال تک مظاہروں اور کشیدگی کا سامنا کرنا پڑا، ستمبر 2022 میں مہیسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔
مارچ 2023ء میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودیہ نے حیران کن طور پر معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے، غزہ میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں تناؤ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کر دیا تھا اور اپریل 2024ء میں ایران نے اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔
حادثے میں جاں بحق ایرانی وزیر خارجہ کون تھے؟
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کو نظام کے سب سے قابل اعتماد لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایران کی طرف سے امریکا اور عراق کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے، ان مذاکرات کے بعد ہی ایران اور امریکا کے درمیان جوہری امور پر بات چیت ہوئی۔
حسین امیر عبداللہیان پہلے ایرانی اہلکار تھے جو حسن روحانی کے دور میں تہران میں برطانوی سفارتخانے کے افتتاح کے بعد لندن گئے اور برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ سے ملاقات کی تھی، وہ وزارت خارجہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے اور خطے میں ایرانی’مزاحمتی فرنٹ‘ اور اثر و رسوخ پر بات کرتے تھے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے تہران یونیورسٹی سے بین الاقوامی امور سے متعلق ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی، وہ بحرین میں ایران کے سفیر رہ چکے مگر حسن روحانی کی حکومت نے انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا، حالیہ دور میں غزہ جنگ کے دوران ایرانی وزیر خارجہ نے مختلف ممالک کے دورے کیے تھے۔