تحریک انصاف کے سینئر رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کی پریس کانفرنس حیران کن تھی۔ اتحادی حکومت کے قائدین نے عدلیہ پر براہ راست حملہ کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کیس کا فیصلہ جلد ازجلد ہونا چاہیے، امید ہے عدالت دبائو میں نہیں آئے گی۔ پنجاب حکومت کا بحران پورے پاکستان پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ فل بنچ کی تشکیل چیف جسٹس کی صوابدید ہے، باہر سے کسی کا استدعا کرنا جائز نہیں ہے۔ فل کورٹ کے مطالبے کا مقصد کیس کو طول دینا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چودھری کا کہنا تھا کہ بلاول کو بتانا ہے کہ بینظیر بھٹو ساری عمر شریف برادران کے عتاب کا نشانہ رہی۔ انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ ن لیگ نے آپ کی والدہ پر کیا ستم نہیں ڈھائے۔ فواد چودھری کا کہنا تھا کہ کراچی پانی سے بھر گیا لیکن بلاول بھٹو وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ شہر قائد اس وقت سوئمنگ پول کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے مسلم لیگ ن کی نائب صدر پر بھی تنقید کی اور کہا کہ مریم نواز ضمانت پر ہیں پھر بھی ایسی باتیں کر رہی ہیں۔ جس گروہ نے پریس کانفرنس کی اس کے لئے سسلین مافیا کی ٹرم بیان کی گئی۔ فلم لندن نہیں جائوں گی کے تمام کردار پریس کانفرنس میں موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تمام چہروں کو دیکھیں ان میں سے بیشتر نے 50، 50 ہزار ارب روپے کمائے ہیں۔ آپ میں تھوڑی شرم وحیا ہے تو سپریم کورٹ سے معافی مانگیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان سب پریس کانفرنس کرنے والوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو تو 14 سال سزا ہونی چاہیے، ان کے شوہر کو سگریٹ کا ٹھیکہ دیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ساری پارٹیوں نے عوام کو دھوکہ دیا، اب ان لوگوں کو گھر جانا چاہیے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے خلاف 11 ہزار بیانات سوشل میڈیا پر دیئے۔ ہم نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف پریس کانفرنسز نہیں کیں بلکہ ہم نے آئینی اور قانونی راستہ اپنایا۔ یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم نے فل بنچ بنانے کا مطالبہ کردیا خیال رہے کہ حکمراں اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر سپریم کورٹ سے فل بنچ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دباؤ میں آکر آئین کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ فل بنچ کا جو بھی فیصلہ ہوگا، ہمیں قبول ہوگا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ سے فل بنچ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں ہمارے ادارے غیر متنازع رہیں۔ مریم نواز کو جیل میں ڈالا گیا، فریال تالپور کو رات کو گھسیٹ کر قیدمیں رکھا گیا لیکن ہم نے نہ تو تشدد کا راستہ اپنایا نہ ہی غیر مناسب زبان استعمال کی۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آپ سے برداشت نہیں ہو رہا کہ آپ کے سلیکٹڈ نے تاریخی قرض لیا۔ ون یونٹ نظام آپ سے برداشت نہیں ہو رہا۔ نظر آ رہا ہے کہ کچھ افراد کو جمہوری نظام ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتیں جمہوری نظام چاہتی ہیں۔ ہمیں آئین کو بحال کرنے کے لیے 30 سال جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ 3 افراد ملک کی تقدیر کا فیصلہ کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کیس میں ہم فل کورٹ بنچ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جو حوالے دیئے گئے، اچھا مواد ہے، اسی کی بنیاد پر ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کیس میں ہم فل کورٹ بنچ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں اجنبی ہونے کا احساس کیوں دلایا جا رہا ہے؟ احتساب سب کے لئے ضروری ہے۔ یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کی توہین کوئی اور نہیں متنازع فیصلے کرتے ہیں دوسری جانب مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ عدلیہ کی توہین کوئی اور نہیں بلکہ ان کے متنازع فیصلے کرتے ہیں۔ کبھی سنا ہے آپ نے کہ کوئی ٹرسٹی وزیراعلیٰ ہو؟ بلیک لا ڈکشنری اور منفرد آئیڈیاز کہاں سے لے آتے ہیں؟ اسلام آباد میں حکومتی اتحاد کے رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ درست کر لیا جائے تو تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔ سول نافرمانی، بل جلاؤ، سپریم کورٹ پر کپڑے ٹانگو، شاہراہ دستور پر قبریں، کیا کیا نہیں کیا گیا۔ ایسا کون سا جرم ہے جو عمران خان نے نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دھرنے میں انہیں سپریم کورٹ نے منع کیا لیکن وہ پھر بھی آ گئے۔ کابینہ میں بند لفافہ لہرایا جاتا ہے، ملک ریاض کے پیسے پر کسی نے نوٹس لیا؟ چودھری شجاعت کو بلایا جاتا ہے اور عمران خان پر آئین کی تشریح ہی بدل جاتی ہے۔ صدر اور قاسم سوری میں کسی کو نہیں بلایا گیا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ناانصافیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ جب پٹیشن آتی ہے، پہلے سے علم ہوتا ہے کہ بنچ کون سا ہوگا۔ ایک غلط فیصلہ سارے مقدمے کو اڑا کر رکھ دیتا ہے۔ اداروں کی توہین اداروں کے اندر سے ہوتی ہے۔ فیصلوں کے اثرات آنے والے وقتوں پر بھی ہوتے ہیں۔ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ پانامہ پر نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹا دیا گیا۔ 2017ء کے بعد ایسا ملک ہلا کہ اب سنبھلنے کو نہیں آ رہا۔ عوامی نمائندوں کو خود سے بڑھ کر سوچنا پڑتا ہے۔ موازنہ نواز شریف حکومت اور عمران خان کی معیشت کا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز ڈیٹھ سیل اور علیمہ خان جرمانہ دے کر گھر جاتی ہیں۔ سرینا عیسٰی، آصف زرداری کی بہن کو تو انصاف ہی نہیں ملا لیکن شیریں مزاری کے مقدمے میں راتوں رات عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ عمران خان کو کورٹ جان کو خطرے پر نہیں بلایا جاتا۔ مجھے پاسپورٹ مانگنے پر دن میں بینچ بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔