ویب ڈیسک: سابق امریکی صدرجمی کارٹر 100 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جمی کارٹر طویل عرصے سے علیل تھے، ان کا انتقال جارجیا میں اپنے گھر پر ہوا، جمی کارٹر1977 سے 1981 تک امریکا کے صدر رہے۔
جمی کارٹر کوامن کے لیے کوششوں پر نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا تھا، جمی کارٹر نے اسرائیل اور مصر کے درمیان امن کیلئے ثالثی کی۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے جمی کارٹرکے انتقال پر سوگ کا اعلان کیا ہے، سابق امریکی صدر کے انتقال پر پرچم بھی سرنگوں کر دیا گیا، جمی کارٹر کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ کی جائے گی۔
صدر جوبائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکا اور دنیا نے ایک غیر معمولی رہنما، سیاست دان اور انسان دوست کو کھو دیا ہے، جمی کارٹر کی شخصیت اصول، ایمان اور انسان دوستی کی علامت تھی۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور ان کی اہلیہ سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جمی کارٹر کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے.
اپنے ایک بیان میں سابق صدر نے کہا ہے کہ جمی کارٹر کو دوسروں کی خدمت کے لیے جیتے تھے، اپنی صدارت کے دور کے بعد بھی جمی کارٹر نے ایماندارانہ انتخابات کی حمایت، امن کو آگے بڑھانے اور جمہوریت کو فروغ دینے میں کوششیں جاری رکھیں۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے بھی جمی کارٹر کو خراج تحسین پیش کیا، باراک اوباما نے کہا کہ جمی کارٹر نے ہم سب کو انصاف اور خدمت کے ساتھ باوقار زندگی گزارنے کا مطلب سکھایا.
سابق صدر جارج بش نے جمی کارٹر کی وفات پر اپنے بیان میں کہا کہ جمی کارٹر کی خدمات نے ایک مثال قائم کی ہے جو امریکیوں کو نسلوں تک متاثر کرے گی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے انتقال پر اظہار افسوس کیا ہے۔
صدر مملکت نے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے خاندان، امریکی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار تعزیت کیا ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ عالمی امن اور اِنسانی حقوق کے شعبے میں سابق امریکی صدر کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔ دُکھ کی اِس گھڑی میں میری ہمدردیاں جمی کارٹر کے خاندان کے ساتھ ہیں۔
جمی کارٹر کون تھے ؟
ان کا پورا نام جیمز ایرل کارٹر تھا، ان کے والد ایک دکان چلاتے تھے۔
وائز سینیٹوریم میں ان کی والدہ للین کارٹر نے یکم اکتوبر 1924 کو جمی کارٹر کو جنم دیا تھا۔ وہ اس سینیٹوریم میں نرس کے طور پر کام کرتی تھیں۔ اور اپنے بچے کی پیدائش کے دن بھی ڈیوٹی پرتھیں۔ کارٹر اسپتال میں پیدا ہونے والے پہلے امریکی صدر تھے۔ آج اس عمارت کو جی کارٹر نرسنگ سینٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
انہوں نے ریاست جارجیا کے علاقے پلینز میں واقع ہائی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کےبعد امریکا کی نیول اکیڈمی سے 1946 میں گریجویشن کی اور اس کے بعد کچھ عرصہ سب مرین پروگرام میں بھی خدمات انجام دیں تاہم بعدازاں چھوڑ کر مونگ پھلیوں کی کاشت کاری کے کام سے وابستہ ہو گئے۔
انہوں نے 1946 میں روسالین سے شادی کی جس کو وہ ’اپنی زندگی کا سب سے اہم دور قرار دیتے ہیں۔‘
ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
جمی کارٹر 1971 اور 1975 کے درمیان جارجیا قانون ساز اور جارجیا کے گورنر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔
ان کو 1976 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارت کا امیدوار چنا گیا اور وہ اپنے حریفوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے نکل گئے۔می کارٹر نے صدارت سنبھالی اس وقت امریکہ کو کافی مشکلات کا سامنا تھا جن میں سب سے بڑا مسئلہ معیشت کی خرابی کا تھا جبکہ ایران میں بحرانی حالا ت کے باوجود بھرپور جدوجہد کی اور مصر اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کرتے ہوئے امن بھی قائم کیا۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی 1977 سے 1981 تک کی صدارت میں کامیابیاں اور تنازعات شامل تھے، جیسے کہ کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے کی کامیابی، لیکن کچھ معاملات کے باعث امریکی ووٹرز نے انہیں کمزور صدر سمجھا اور وہ دوسری بار صدارت کے منصب پر فائز نہیں ہو سکے۔
سنچری مکمل کرنیوالے پہلے امریکی صدر
جمی کارٹر نے مارچ 2019 میں جارج ایچ ڈبلیو بش کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ کے طویل العمر سابق صدر کا اعزاز حاصل کیا اور وہ پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے 100 برس کی عمر پائی۔
جمی کارٹر کو انسانیت کے لیے خدمات انجام دینے پر 2002 میں امن کا نوبیل انعام بھی دیا گیا۔
جمی کارٹراور پاکستان
صدر کارٹر کا مونگ پھلی کے کاشت کار ہونے کا ایک تاریخی حوالہ پاکستان سے بھی جڑا ہے۔
انہوں نے جب منصبِ صدارت سنبھالا تو افغانستان میں ایک بڑی تبدیلی کے آثار نمایاں ہو چکے تھے اور انہی کی مدت کے دوران 1979 میں سوویت افواج افغانستان میں داخل ہو چکی تھیں۔
ادھر جنرل ضیا الحق کی جانب سے پانچ جولائی 1977 کو مارشل لا نافذ کرنے کے بعد پاکستان میں بھی ایک بڑی تبدیلی آ چکی تھی۔
جنرل ضیا نے روسی عزائم سے متعلق 1978 ہی میں امریکہ سے براہ راست تشویش کا اظہار شروع کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جولائی 1978 میں صدر کارٹر کے نام ایک خط بھی لکھا تھا۔
سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد اس کے مقابلے کے لیے امریکہ اور پاکستان میں ایک طویل شراکت داری کا آغاز ہوا۔ صدر کارٹر نے 1980 میں پاکستان کے لیے 40 کروڑ ڈالر کے ایک پیکج کا اعلان کیا تھا جس کی رقم 18 ماہ میں منتقل ہونا تھی۔
اس پیکج میں 20 کروڑ ڈالر پاکستان کے عسکری آلات کے لیے تھے جب کہ 20 کروڑ ڈالر اقتصادی امداد تھی۔ تاہم پاکستان کے فوجی حکمران ضیا الحق نے اس پیکج کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’مونگ پھلی‘ قرار دیا تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ امریکی صدر مونگ پھلی کے کاشت کار ہیں۔
پاناما کینال
اپنے عہدِ صدارت کے پہلے برس میں، کارٹر نے اپنی انتخابی مہم کے وعدے سے انحراف کرتے ہوئے پاناما کینال کا انتظام پاناما کی حکومت کو واپس دینے کا فیصلہ کیا، جو 20ویں صدی کے آغاز سے امریکی فوج کے کنٹرول میں تھی۔
7 ستمبر 1977 کو پاناما کے رہنما عمر ٹوریہوس کے ساتھ کینال معاہدوں پر دستخط کے موقعے پر انہوں نے کہا: ’دنیا کے دیگر اقوام کے ساتھ ہمارے معاملات میں انصاف کو کلیدی حیثیت حاصل ہونی چاہیے، نہ کہ طاقت کو۔‘
اس فیصلے پر کارٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کیونکہ اس سے پاناما کو 1999 کے آخر میں بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو ملانے والے کینال کا کنٹرول دیا گیا۔
ایران یرغمالی بحران
یرغمالی بحران – جس میں 50 سے زیادہ امریکیوں کو تہران میں امریکی سفارت خانے میں نومبر 1979 سے جنوری 1981 تک 444 دنوں تک یرغمال رکھا گیا – کارٹر کی صدارت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔
اپریل 1980 میں ایک ناکام فوجی امدادی مشن نے اس سال کے آخر میں ان کے دوبارہ انتخاب کے امکانات تقریباً ختم کر دیے۔
آپریشن ایگل کلا (Operation Eagle Claw) ریت کے طوفانوں اور میکانیکی مسائل کی وجہ سے ناکام ہوا اور بالآخر مشن منسوخ کر دیا گیا۔ واپسی کے دوران، دو امریکی طیارے آپس میں ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں آٹھ اہلکار ہلاک ہو گئے۔
چند دنوں بعد، اس وقت کے وزیر خارجہ سائرس وینس نے استعفیٰ دے دیا، اور مشن کی ناکامی کارٹر کی بحران حل کرنے کی صلاحیت میں کمی کی علامت بن گئی۔
یرغمالیوں کو بالآخر اس دن رہا کیا گیا جب ریپبلکن رونالڈ ریگن نے جنوری 1981 میں عہدہ سنبھالا، جو نومبر 1980 کے انتخابات میں کارٹر کو شکست دے چکے تھے۔
ہالی وڈ ڈائریکٹر بین ایفلک نے اس واقعے پر فلم ’’آرگو’’ بنائی ۔2012 میں ریلیز ہونے والی فلم نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے جبکہ فلم میں مرکزی کردار بھی بین ایفلک نے ادا کیا تھا،
کارٹر سیاسی زندگی سے ریٹائرمنٹ کے باوجود 90 سال کی عمر تک انتہائی متحرک رہے۔
1982 میں، انہوں نے کارٹر سینٹر کی بنیاد رکھی، جو تنازعات کے حل، جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ، اور بیماریوں کے خلاف کام کرتا ہے۔
کارٹر، جنہیں اکثر امریکہ کے سب سے کامیاب سابق صدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نے بڑے پیمانے پر سفر کیا، ہیٹی سے مشرقی تیمور تک انتخابات کی نگرانی کی، اور ایک ثالث کے طور پر پیچیدہ عالمی مسائل کو حل کیا۔
جمی کارٹر نے کمیونسٹ ملک شمالی کوریا کے دورے بھی کیے اور 1994 میں ہونے والے دورے کے نتیجے میں اس نے جوہری پروگرام روکا اور ایک معاہدہ کیا گیا جس کے مطابق شمالی کوریا امداد کے بدلے میں اپنا جوہری پلانٹ کو پراسیس نہ کرنے کا وعدہ کیا۔