لازوال دھنیں تخلیق کرنیوالے خواجہ خورشید انور کی37ویں برسی

لازوال دھنیں تخلیق کرنیوالے خواجہ خورشید انور کی37ویں برسی
لاہور ( پبلک نیوز) سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے جیسی لافانی دھنیں تخلیق کرنے والے خواجہ خورشید انور کی آج 37 ویں برسی منائی جا رہی ہے۔

دل کا دیا جلایا رم جھم رم جھم پڑے پھوار جس دن سے پیا دل لے گئے او جانے والے رے ٹھہرو ذرا رک جاؤ

خواجہ خورشید انور 21 مارچ 1913 کو میانوالی میں پیدا ہوئے اور وہ علامہ اقبال کے قریبی رشتہ دار تھے۔ والد بیرسٹر فیروزالدین کو کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی سننے اور جمع کرنے کا شوق تھا۔ گھر میں موسیقی کی محفلوں میں استاد توکل حسین، استاد عبدالوحید خاں، استاد عاشق علی خاں جیسے اساتذہ شرکت کرتے ان عوامل نے خورشید انور کو ایک لافانی موسیقار بنا دیا۔ خواجہ خورشید انور نے 1935 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا اور اول پوزیشن حاصل کی، تقسیم انعامات کی تقریب میں انگریز وائس چانسلر نے جب گولڈ میڈل کے لیے نام پکارا۔ وہ موجود نہ پائے گئے۔ تو اس نے برجستہ کہا کہ جو طالب علم اپنا میڈل لینا بھول گیا ہے وہ حقیقی طور پر ایک فلسفی ہے۔ 1936 میں مقابلے کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی لیکن چونکہ وہ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں شریک رہے تھے اور انقلابیوں کو کالج لیبارٹری سے پکرک ایسڈ فراہم کرنے کے الزام میں قید بھی بھگت چکے تھے۔ اسلیے انٹرویو میں ناکام قرار دیئے گئے۔ خواجہ خورشید انور ماچس کی ڈبیا کو ایک خاص انداز میں بجاتے اور وہیں سے وہ اپنی نایاب دُھن کی بنیاد تشکیل دے دیا کرتے، 1947ء میں سہگل نےان کی دُھن پر اپنی زندگی کا آخری گانا گایا۔ خواجہ خورشید انور کو صدارتی ایوارڈ، ستارہ امتیاز سمیت کئی بین الاقوامی ایوارڈ سے نوازا گیا، ریڈیو پاکستان کی سگنیچر ٹیون ان کی بنائی ہوئی ہے، خواجہ خورشید انور 30 اکتوبر 1984 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔

Watch Live Public News

شازیہ بشیر نےلاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 42 نیوز اور سٹی42 میں بطور کانٹینٹ رائٹر کام کر چکی ہیں۔