6 ججز نےتوہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی؟سپریم کورٹ بار

عدلیہ میں مداخلت کا کیس: کراچی بار کی تجاویز سپریم کورٹ میں جمع
کیپشن: Judiciary interference case: Karachi Bar proposals submitted to Supreme Court

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ بار نے سوال اٹھایا ہے کہ چھ ججز پر کن کیسز میں دباؤ ڈالا گیا۔ خط میں اس بات کا ذکر نہیں اور اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ 6 ججز نے توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی؟

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار نے ججز کیس میں اپنی تجاویز جمع کرا دیں۔ سپریم کورٹ بار نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ عدلیہ کے امور میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ سپریم کورٹ ازخودنوٹس کارروائی کے دوران ہائی کورٹ کے آئینی اختیارات کو بھی مدنظر رکھے۔ 

تجویز دی گئی ہے کہ مناسب ہوگا کہ ججز کے خط کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ادارہ جاتی طور پر حل کرے۔ خط پبلک ہونے سے عدلیہ کی ساکھ عوام کی نظر میں متاثر ہوئی ہے۔ 

تجویز میں کہاگیا ہے کہ توہین عدالت کا قانون اعلیٰ عدلیہ کو ایسے معاملات میں کارروائی کا مکمل اختیار دیتا ہے۔ چھ ججز پر کن کیسز میں دباؤ ڈالا گیا خط میں اس بات کا ذکر نہیں۔ اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ چھ ججز نے توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی؟ 

ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ہائی کورٹ ججز کا خط سپریم جوڈیشل کونسل کو پہنچنے سے پہلے لیک ہونے کی انکوائری کی جائے۔ ماتحت عدلیہ کے بغیر دباؤ کام کرنے کیلئے فریم ورک بنایا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو کسی کمرشل سرگرمی کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ 

تجویز دی گئی ہے کہ کسی جج کو عدلیہ کے اندر سے دبائو کا سامنا ہو تو متعلقہ چیف جسٹس کو آگاہ کرے۔ متعلقہ چیف جسٹس اگر مخصوص وقت میں کارروائی نہ کرے تو متاثرہ جج سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کا اختیار رکھتا ہو۔

  عدلیہ میں مداخلت کے کیس میں کراچی بار نے تجاویز سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں:

کراچی بار کی جانب سے تجویز دی گئی کہ ججز کو پابند بنایا جائے کہ مداخلت کی ہر کوشش پر 7 روز میں مجاز اتھارٹی کو آگاہ کریں، مجاز اتھارٹی کو بھی پابند کیا جائے رپورٹ کرنے والے ججز کو مکمل تحفظ فراہم کرے، عدم تحفظ کے باعث بہت سے ججز واقعات پر مجاز حکام کو آگاہ ہی نہیں کرتے۔

تجویز میں کہا گیا ہے کہ مداخلت کی کوشش ریاستی اداروں سے ہو، خود عدلیہ سے یا نجی سیکٹر سے، ہر صورت آگاہ کیا جائے، عدلیہ اور حکومت کے درمیان آگ کی دیوار ہمیشہ قائم رہنی چاہیے، قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ججز کو سرکاری حکام اور انٹیلی جنس نمائندوں کیساتھ ملنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

کراچی بار نے تجویز دی کہ اگر سرکاری کام کیلئے حساس اداروں کے افسران سے ملنا ضروری ہو تو مجاز حکام کو آگاہ کیا جائے، مداخلت سے آگاہ نہ کرنے کو جج کا مس کنڈکٹ قرار دیا جائے، مداخلت کے حوالے سے غلط بیانی کرنے والے ججز کی خلاف کارروائی کی جائے۔

تجویز میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس مداخلت رپورٹ کرنے کیلئے خصوصی سیل قائم کریں، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے صوابدیدی اختیارات کا بھی جائزہ لیا جائے، بنچز کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہونا درست نہیں، ہائی کورٹس میں بنچز کی تشکیل اور مقدمات مقرر کرنے کا فیصلہ ججز کی تین رکنی کمیٹی کرے۔

کراچی بار نے اپنی تجویز میں کہا کہ آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں، انٹیلی جنس ایجنسیوں کا شہریوں کے متعلق کیا گیا ہر اقدام غیرآئینی ہے، شہریوں کی جاسوسی اور انٹیلی جنس رپورٹس کی تیاری غیرقانونی ہے، حکومت کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے سے قانون سازی کی ہدایت کی جائے۔

تجویز میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ چھ ججز کے خط کی آزادانہ انکوائری کرائے، عدالت ذمہ داران کا تعین کر کے سخت کارروائی کا حکم دے۔