پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کو گرفتار بھی کیا تاہم اب لڑکا اور لڑکی نے ملزمان کو پہنچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ دونوں مدعی اپنے بیان سے مکر گئے ہیں۔ لڑکے اور لڑکی نے ٹرائل کورٹ میں اپنا بیان بھی ریکارڈ کروا دیا ہے۔ لڑکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پولیس نے سارا معاملہ خود بنایا ہے، میں نے بیان حلفی کسی کے دبائو میں آ کر نہیں دیا، کسی بھی ملزم کو نہ شناخت کیا اور نہ ہی کسی پیپر پر دستخط کئے۔ میں نے کسی کو بھی تاوان کی رقم ادا نہیں کی۔ ملزم ریحان سمیت دیگر ملزمان کو مجھے تھانے میں دکھایا گیا تھا۔ ریحان سمیت کسی بھی ملزم نے میرے ساتھ زیادتی کی کوشش نہیں کی۔ میں ریحان کو نہیں جانتی نہ ہی وہ ویویڈو بنا رہا تھا۔ دوسری جانب وزیراطلاعات فواد چوہدری نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عثمان مرزا، GT Road Rape case اور جتوئی کیس ہمارے نظام انصاف کیلئے چیلنج ہیں سوال یہ ہے کہ یہ کیس روزانہ کی بنیاد پر کیوں نہیں چل رہے اور ان کو عمومی مقدموں کے طور پر کیوں لیا جا رہا ہے؟ پراسیکیوشن اور عدالت اپنی ذمہ داری نبھائیں ان کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا ریاست کا فرض ہے.اسلام آباد عثمان مرزا ریپ کیس میں مدعی لڑکے اور لڑکی اپنے بیان سے مکر گئے ہیں یہ ان کے ملزم ہی نہیں ہیں۔ پولیس زرائع مطابق صلح کے لیے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی ڈیل کی گئی ہے۔پولیس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا گیا ہے۔مرزا بہت جلد آپ کے درمیان ہوں گے ٹک ٹاک پر۔ہور کوئی ساڈے لائق؟
— Rauf Klasra (@KlasraRauf) January 11, 2022
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں لڑکا لڑکی پر تشدد کے کیس کی خود پیروی کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کیس کی پیروی سے متعلق اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پیروی کا فیصلہ متاثرہ لڑکی کے ملزمان کو نہ پہچاننے کے تناظرمیں کیا، ناقابل تردید ویڈیو اور فارنزک شواہد ریکارڈ پر موجود ہیں۔ خیال رہے کہ 02 دسمبر 2021ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں عثمان مرزا کیس میں ایف آئی اے اہلکار مسعود علی پر ملزمان کے وکلا نے جرح مکمل کرلی تھی۔ گذشتہ جمعرات کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطاء ربانی کی عدالت میں کیس کی سماعت کی گئی۔ مرکزی ملزم عثمان مرزا اور دیگر ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ سماعت کے دوران ملزمان کے وکلاء نے گواہان پر جرح کی۔ ایف آئی اے اہلکار مسعود علی نے کہا کہ میرے پاس اصلی ویڈیو نہیں تھی بلکہ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی ویڈیو تھی۔ اس نے کہا کہ میں نے آسٹریلین پولیس سے جو کورس کیا ہے اس میں آڈیو ویڈیو فورینسک کرنا شامل ہے۔ ملزمان کے وکلا نے سوال کیا کہ گوگل کس کا یونٹ ہے۔ ایف آئی اے اہلکار مسعود علی نے کہاکہ مجھے نہیں پتا کہ گوگل کس کا یونٹ ہے۔ ایف آئی اے اہلکار مسعود علی پر ملزمان کے وکلا نے جرح مکمل کر لی ہے۔ ایف آئی اے اہلکار انیس الرحمن نے کہا کہ ٹویٹر پر ٹرینڈ بنا جس پر غیر اخلاقی ویڈیوز تھیں جس پر میں نے تحقیقات کیں، میں نے ٹرینڈ پر تحقیقات نہیں کیں کہ کتنے اصلی اور نقلی اکاؤنٹ تھے۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال جولائی میں سوشل میڈیا پر لڑکی اور لڑکے پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے تشدد کرنے والے بااثر ملزم عثمان مرزا سمیت کئی افراد کو گرفتار کیا تھا۔عثمان مرزا، GT Road Rape case اور جتوئ کیس ہمارے نظام انصاف کیلئے چیلنج ہیں سوال یہ ہے کہ یہ کیس روزانہ کی بنیاد پر کیوں نہیں چل رہے اور ان کو عمومی مقدموں کے طور پر کیوں لیا جا رہا ہے؟ پراسیکیوشن اور عدالت اپنی ذمہ داری نبھائیں ان کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا ریاست کا فرض ہے https://t.co/qPrsdJluxy
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) January 12, 2022