چیف جسٹس کا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی مدت میں تبدیلی کا عندیہ

چیف جسٹس کا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی مدت میں تبدیلی کا عندیہ
کیپشن: Chief Justice's indication of change in the period for filing an appeal in the Supreme Court

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسی نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی مدت میں   تبدیلی کا عندیہ دے دیا۔ 

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی مدت میں تبدیلی کیلئے سینئر وکلا سے رائے طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے پلاٹ کے تنازعے کے کیس کی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی مدت کیا ہونی چاہیے؟ 

وکلاء کا کہنا تھا کہ اپیل کی مدت سے متعلق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا ایک فیصلہ موجود ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ محدود ہے۔ آپ کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ بیرسٹر صلاح الدین احمد ، فروغ نسیم ، خالد جاوید، فیصل صدیقی اور دیگر وکلا نے معاملہ پر انتظامی طور پر جائزہ لینے کا مشورہ دے دیا۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس معاملے کو دیکھتے ہیں، یہ انتظامی طور پر حل ہوگا یا جوڈیشل سائڈ پر؟

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ یہ فیصلہ کرسکتے ہیں۔ آپ کے دور میں بہت سے یونیک فیصلے ہوئے ہیں۔ جس چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یونیک تو اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی؟ آپ کچھ بولیں گے بھی یا ہم توہین عدالت لگائیں؟ کیا ہم آپ کو قانون کی کلاسز دیں؟

شہری حکومت کی جانب سے شہری کے خلاف پلاٹ کی ملکیت کے کیس میں وکیل کی جانب سے مہلت طلب کرنے پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کیا۔ سپریم کورٹ نے میئر کراچی مرتضی وہاب کو فوری طلب کرلیا۔ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو بھی فوری پیش ہونے کا حکم دیدیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں نے عدالت کا مذاق بنایا ہوا ہے، کیس دائر کرتے ہیں تو چلایا کریں۔ پندرہ سال سے کیس دائر کیا ہوا ہے چلاتے کیوں نہیں؟ عدالت کا مذاق نا بنائیں ، بار بار التوا کی درخواست دے دیتے ہیں۔ شہری حکومت کا سربراہ کون ہے ؟ 

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ میئر کراچی سربراہ ہوتا ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون ہے ابھی کراچی کا میئر؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ مرتضی وہاب میئر ہیں کراچی کے میئر۔

کلفٹن میں سرکاری پلاٹ کی ملکیت کے تنازعہ پر میئر کراچی عدالتی حکم پر پیش ہوگئے۔ چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پتا ہے آپ کو کیوں بلایا ہے؟ مرتضیٰ وہاب نے کہا مجھے میڈیا رپورٹس کے ذریعے پتا چلا ہے بلایا گیا ہے۔ فروغ نسیم صاحب سے پوچھ لیتا ہوں کیا کیس ہے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ کے مخالف فریق کے وکیل ہیں۔ آپ کا خیال نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ دیکھیں آپ کے وکلا کیا کررہے ہیں، پھر کہتے ہیں سپریم کورٹ میں کیسز نہیں چلتے۔ کیس چلانے کا کہا تو آپ کے وکیل نے مہلت طلب کرلی۔ 

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ کیس سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے دائر کیا تھا اب زمینوں سے متعلق یہ محکمہ کے ڈی اے کے پاس ہے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سارا دن خراب ہوا اور آپ کا بھی وقت ضائع ہوا۔ اب بتارہے ہیں یہ کے ایم سی کا مسئلہ ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے وکیل کیوں موجود نہیں ہیں؟ کیس کیوں نہیں چلاتے؟ 

ڈی جی کے ڈی اے نے جامع رپورٹ پیش کرنے کیلئے مہلت طلب کرلی۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی کے ڈی اے کو باقاعدہ وکیل مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

سپریم کورٹ نے سماعت 26 اپریل تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے تنبیہ کی کہ مفاد عامہ کے کیسز میں کوئی التوا برداشت نہیں کریں گے۔ کے ڈی اے اور کے ایم سی ترجیحی بنیادوں پر کیسز چلائیں یہ شہریوں کی امانت ہے۔