ویب ڈیسک: حساس اور قانون نافذ کرنے والےاداروں نے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ٹی ٹی پی خوارج کی دفاعی شوریٰ کے سربراہ نصراللہ کو گرفتار کرلیا۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے بتایا کہ ہم ایک بڑی کامیابی کے بارے میں آگاہ کررہے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گزشتہ روز اہم آپریشن کیا، کارروائی میں اہم دہشتگرد کمانڈر کو گرفتار کیا گیا، دہشت گردوں کا اہم نیٹ ورک پکڑا گیا ہے۔
ضیاء لانگو نے کہا کہ ان تمام دہشت گردوں کے پیچھے بھارتی ایجنسی را کا ہاتھ ہے، ہمسایہ ملک ان دہشت گردوں کواپنی سرزمین پر پناہ دیتا ہے، ان دہشت گردوں کا اسلام سےدوردور تک کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا گرفتار کمانڈر نصراللہ شوری کا رکن ہے دفاعی کمیشن کا ممبر بھی رہا ہے، بعد ازاں انہوں نے دہشت گرد نسراللہ کا ویڈیو پیغام سنایا۔
دہشت گرد نے اپنے بیان میں بتایا کہ میرا نام نصر اللہ ہے، میرا تعلق محسود قبیلے سے ہے، جنوبی وزیرستان سے میرا تعلق ہے کالعدم ٹی ٹی پی کی تشکیل سے پہلے میں تخریبی کارروائیوں میں حصہ لیتا رہا تھا، جب کالعدم ٹی ٹی پی وجود میں آئی تو میں شامل ہوگیا، اس طرح میں گزشتہ 16 سال سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ وابستہ رہا۔
وزیرداخلہ بلوچستان کا کہنا تھا کہ میں نے اس دوران براہ راست دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا اور ضرب عضب کے دوران پاکستان فرار ہوگیا اور وہاں پکتیکا میں رہنے لگا، ان 16 سالوں میں میں نے پاکستان کی سیکیورٹی اداروں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائی میں حصہ لیا، میں نے شمالی وزیرستان، ڈیرہ اسمعیل خان، اور پاک افغان بورڈر میں پاک فوج کے مختلف پوسٹس پر کئی حملوں میں حصہ لیا جن میں چغملئی چیک پوسٹ، زندہ سر پوسٹ، غر لمائی پوسٹ، اکما لا سر پوسٹ، زنگارا، مادی نارئی پوسٹ، مکین روڈ پو قافلے پر حملہ اور ماروبی چیک پوسٹ پر حملہ شامل ہے۔
گرفتار دہشت گرد نے بتایا کہ ان حملوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کا جانی اور مالی نقصان ہوا، میں کالعدم ٹی ٹی پی کے اندر مختلف عہدوں کے اندر کام کرتا رہا ہوں، مجھے 2020 میں تحصیل شوال شمالی وزیرستان کا کمشنر بنایا گیا، 2021 میں مجھے تحصیل لائے مہمند باجوڑ کے کمشنر مولوی خان سعید کا ڈپٹی مقرر کیا گیا، میں 2023 سے اب تک کالعدم ٹی ٹی پی کے دفاعی کمیشن میں امیر کے طور پر کام کر رہا ہوں۔
ضیاء لانگو نے مزید کہا کہ میری ذمہ داری کالعدم جماعت کے تمما تر عسکری، مالی، اور انتظامی امور کو مرکزی طور پر کنٹرول کرنا تھا اور میں پاکستان مین بھیجی جانے والی تشکیلات کے لیے ہتھیار اور گولہ بارود کو سنبھالتا تھا، جنوری 2024 میں کالعدم ٹی ٹی پی کے امر مفتی نور نور ولی محسود اور وزیر دفاع مفتی مزاحم نے مجھے کنداھار بلایا اور بتایا کہ ایک خاص مقصد کے لیے پاکستان کےئ صوبہ بلوچستان جانا ہے اور اس میں ہمیں اسپن بولدک سے ہوتے ہوئے، کالعدم بی ایل اے گائیڈ کی مدد سے بلوچستان کی جنوب سے سرحد کو پار کرنا تھا۔
دہشتگرد نے بتایا کہ منصوبہ مفتی صاحب نے کالعدم بی ایل اے کے کمانڈر بشیر زیب کے ساتھ مل کر بنایا تھا، اس سارے کام کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ تھا، جو چاہتی تھی کہ کالعدم بی ایل اے اور کالعدم ٹی ٹی پی کا الحاق کرایا جائے، اور کالعدم ٹی ٹی پی کے بلوچستان کے علاقے خضدار میں مراکز قائم کیے جائیں، الحاق کا مقصد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں محفوظ پنا گاہیں بنانا اور وہاں سے دہشتگردی کی کارروائیاں کرنا تھا، جس سے بلوچستان میں بد امنی پیدا کی جائے۔
اس موقع پر ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گورایہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بیشتر حملوں میں دہشتگردوں کے ساتھ انڈیا کی سہولت کاری کے ثبوت ملے ہیں۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی، بی ایل اے کو افغانستان میں تربیت فراہم کر رہا ہے۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے بتایا کہ منشیات کا پیسہ اور کاشت براہ راست دہشتگردی میں استعمال ہو رہا ہے۔ قلات اور خضدار میں دہشتگردی کے کیمپ کے شواہد ملے ہیں۔ جلد ہی ہم بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے کیمپس تک پہنچ کر بے نقاب کریں گے۔
وزیرداخلہ بلوچستان نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کو انسانیت کا ساتھ دیتے ہوئے انڈیا پر پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔
ترجمان بلوچستان حکومت کا کہنا تھا کہ سرفراز بنگلزئی اور گلزار امام شمبے نے ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈالے۔ ان دونوں سابق دہشتگرد اب قومی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔