چینی اساتذہ پر حملہ کرنے والوں کو قیمت چکانا ہوگی:چین

چینی اساتذہ پر حملہ کرنے والوں کو قیمت چکانا ہوگی:چین
بیجنگ: (ویب ڈیسک) چین نے کراچی میں دہشتگرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ملوث افراد کو یقیناً قیمت ادا کرنی پڑیگی۔ چینیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ چینی فارن منسٹری کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں نے جامعہ کراچی کی وین کو نشانہ بنایا۔ جس سے 3 چینی ٹیچرز ہلاک ہو گئے تھے۔ چین نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دکھ کی گھڑی میں ہم متاثرین کے اہلخانہ کے ساتھ ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کے معاون وزیر خارجہ ووجیانگ ہاؤ نے چین میں پاکستانی سفیر کو فوری فون کرکے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی فی الفور تحقیقات ہونا ضروری ہیں چین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ دہشتگردی میں ملوث قصورواروں کو حراست میں لے کر قانون کے کٹہرے میں لائے جبکہ چینی شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے تاکہ ایسے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جا سکے۔ یہ بھی پڑھیں: کراچی یونیورسٹی دھماکا، ہلاک ہونیوالے چینی شہری کون تھے؟ خیال رہے کہ گذشتہ روز ایک خاتون خود کش بمبار نے کراچی یونیورسٹی میں مسافر گاڑی پر حملہ کرکے چینی باشندوں سمیت 4 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ ٹارگٹ چینی باشندے ہی تھے۔ تاہم اس دہشتگردی میں ہلاک چینی شہری کون تھے؟ کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے اس بزدلانہ کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس خود کش حملے میں ایک خاتون کو استعمال کیا گیا جس کا نام شاری بلوچ تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شاری بلوچ نامی اس خود کش بمبار کا تعلق پڑھے لکھے گھرانے سے تھا۔ اس نے خود بھی دو ماسٹرز اور ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی جبکہ اس کا شوہر پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہے۔ اس بزدلانہ کارروائی میں مرنے والے چینی شہری تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے۔ اور یونیورسٹی میں طلبہ کو چائنیز زبان سکھاتے تھے۔ ان میں چینی لیکچرار ڈنگ میوپینک، لیکچرار چن سائی اور پروفیسر ہوانگ گیپنگ شامل تھے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے طلبہ نے بتایا کہ ڈنگ میوپینک اور چن سائی انتہائی ایماندار استانیاں تھیں۔ دونوں اپنے فرائض مکمل طور پر دیانتداری سے ادا کرتیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ تاخیر سے پہنچی ہوں۔ اس وجہ سے ہم لوگ بھی کلاس کی پابندی کرتے تھے۔ طلبہ نے بتایا کہ لیکچرار ڈنگ میوپینک کا پڑھانے کا انداز پیشہ ورانہ ہوتا تھا جبکہ چن سائی کھلے ڈھلے انداز میں اپنا کام کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈنگ میوپینک سمجھتی تھیں کہ ون بیلٹ ون روڈ کی وجہ سے آنے والے وقت میں چینی زبان پر عبور رکھنے والوں کی بہت مانگ ہوگی۔ اس لئے اگر ہم لوگ اپنا مستقبل اچھا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خوب محنت کرنی چاہیے۔ پروفیسر ہوانگ گیپنگ کی بات کی جائے تو وہ کچھ روز قبل ہی چین سے واپس آئے تھے اور جامعہ کراچی کے شعبہ کنفیوشس انسٹیٹیوٹ میں بحثیت ڈائریکٹر تعینات ہوئے تھے۔ انہوں نے 2013ء میں اس ادارے کا آغاز کیا تھا۔ کچھ عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد وہ واپس چین چلے گئے تھے۔
ایڈیٹر

احمد علی کیف نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پبلک نیوز کا حصہ بننے سے قبل 24 نیوز اور سٹی 42 کا بطور ویب کانٹینٹ ٹیم لیڈ حصہ رہ چکے ہیں۔