ویب ڈیسک :قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کا اجلاس میں سیکرٹری مذہبی امور نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی حکام پہلےعمرہ ، حج کو مذہبی فریضہ کے طور پر لیتے تھے اب ٹورازم کے طورپر دیکھتے ہیں اب ہر سروس کے لئے پیسے دینے ہوں گے۔
اجلاس کے دوران وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری اور دیگر حکام نے پارلیمینٹرینز کے سوالات کے جواب دیتےہوئے کہا ہے کہ پہلے مفت سبیلیں لگی ہوتی تھیں ، اب ایسا نہیں ہےاب سروس والوں کو ٹھیکے دیے جاتے ہیں جس کے لئے پیسوں کی ادائیگی کرنا ہوگی ۔اب سعودی حکام حج کو مذہبی سیاحت کے طور پر دیکھتے ہیں، انہوں نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اب سروسز پورٹل کے زریعے حاصل کی جاتی ہےآئندہ سالوں میں یہیں وزرات سے بیٹھ کر سب سہولیات خرید لیں گے۔
رکن کمیٹی مجاہد علی نے کہا ک حج کے احکامات پر ہمارے لوگوں کو تربیت ہونی چاہئے،ہمارے حاجیوں کو کموڈ والے واش روم کا پتہ نہیں ہوتا وہ کپڑے ان میں رکھ ڈالتے ہیں اور پوچھتے ہیں ٹائلٹ نہیں ہے، جس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ حاجی کیمپس میں تربیت فراہم کی جاتی ہے اب تو بہت آگہی آگئی ہے۔
رکن شگفتہ جمانی کا کہناتھا کہ صبح کے ناشتے میں خشک نان اور چنے دیئے جارہے ہیں اچھے کھانے کے لئےوزیر اعظم سے بات کرکے ایڈوائزری کمیٹی بنائی جائے، سیکرٹر ی مذہبی امور نے کہا کہ پاکستانی حاجیوں کے لئے کھانے کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔اب حج کے پانچ دن ہماری ایمبولنس بھی اندر نہیں جاسکتی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس کے دوران رکن آسیہ ناز تنولی نے استفسار کیا کہ بتایا جائے مختلف ممالک کے ہاوسز مکہ و مدینہ میں موجود ہیں پاکستان ہاوسز مکہ و مدینہ میں کیوں نہیں ؟ جس کے جواب میں سیکرٹری مذہبی امور کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت کے قانون کے مطابق ہم اپنی ملکیت میں پاکستان ہاوسز نہیں بنا سکتے۔ پہلے حکومت سعودی عرب نے یہ عمارات پاکستان کو بطور تحفہ دی تھیں تاہم جب مرکزیہ کو توسیع دی گئی تو پاکستان کو دیئے گئے پاکستان ہاوسز بھی منہدم کردیئے گئےاب ان عمارات کی رقم سعودی حکومت نے ہمارے کھاتے میں بینک میں محفوظ کردی ہے۔ہمیں ہماری ضرورتیں پوری کرنے والی عمارات جونہی مل جائیں گی تو اسی رقم سے عمارات خرید لیں گے۔ مگر یہ پاکستان کی ملکیت نہیں ہوں گی بلکہ سفیر ٹرسٹی ہوگا۔